1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں شامی مہاجر بچے سرکس میں

عاطف توقیر
10 اپریل 2017

ترکی میں موجود شامی مہاجر بچے گھومتی پھرکیوں پر رقص کرتے اور تالیوں کے جھرمٹ میں مسکراہٹیں سمیٹتے دوبارہ سے زندگی کی جانب لوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2az8k
Afghanistan Mini Zirkus für Kinder 09.08.2014
تصویر: picture alliance/AP Photo

ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں یہ کوئی بہت بڑا سرکس نہیں ہے، جہاں شامی مہاجر بچے سرکس کی تکنیک کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تخلیقی اور تربیتی پروگرام ان بچوں کو میزبان ملک میں بہتر زندگی کے لیے تیار کر رہا ہے۔

ترکی کی یردے صنعتی ایسوسی ایشن اس وقت تین تا 20 برس کے 120 بچوں کو سرکس کی تربیت فراہم کر رہی ہے۔ شامی سرحد کے شمال میں ترک صوبے مردِن میں اس سرکس میں تربیت حاصل کرنے والے بچوں میں سے 80 شامی مہاجر ہیں، جب کہ باقی ترک ہیں۔

یہ بچے زمین پر کپڑے کی شالوں کو دونوں ہاتھوں میں تھامے فضا میں بلند ہو کر رقص کرتے قلابازیاں لگا رہے ہیں جب کہ زیادہ چھوٹے بچے دوسرے کمرے میں موسیقی کے مختلف آلات پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔

تربیت کے لیے مختص اس عمارت کی پہلی منزل پر ان بچوں کو ترک زبان سکھائی جاتی ہے، تاکہ یہ بچے اسکولوں میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں اور انہیں ترک معاشرے میں اپنے انضمام میں بھی آسانی ہو۔

Afghanistan Mini Zirkus für Kinder 09.08.2014
سرکس کی تربیت لے کر یہ بچے دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ رہے ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo

ان میں سے کچھ بچے جو اسکول نہیں جا سکتے، روزانہ کی بنیاد پر سرکس کی تربیت حاصل کرتے ہیں، جب کہ دیگر بچے ہر اختتام ہفتہ پر اس تربیت کے لیے آن موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اب ایسی بہتر کارکردگی بھی دکھانے لگے ہیں کہ وہ باقاعدہ علاقائی میلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

حلب سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ ایاز حج محمود کا کہنا ہے کہ اس تربیت نے اس کی بہت مدد کی۔ ’’میں نے کچھ ایسی چیزیں سیکھی ہیں، جو مجھے ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیں گی۔‘‘

یہ تربیت جنگ زدہ ملک شام سے ترکی میں منتقل ہونے والے ان بچوں کے لیے اپنا ماضی بھلا دینے میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں موجود تربیت دینے والے استاد خود بھی یا تو باقاعدہ سرکسوں میں کام کرتے آئے ہیں یا کم از کم سرکس کے گر جانتے ہیں۔ ان اساتذہ کو بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ان بچوں سے ان کے آبائی علاقے سے متعلق کچھ دریافت نہ کریں، تاکہ یہ بچے ان دل دوز یادداشتوں کا سامنا نہ کریں، جنہیں بھلا دینا ہی بہتر ہے۔