ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد حکومتی اقدامات میں وسعت و شدت
18 جولائی 2016ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے حکم پر آج پیر کے روز فضائیہ کے جنگی طیاروں نے ملک بھر خصوصا دارلحکومت انقرہ اور استنبول پر اڑانیں بھرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی انادولو کے مطابق صدر ایردوان نے فضائیہ کے ایف سولہ طیاروں کو فضائی نگرانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کسی بھی مشکوک فوجی طیارے یا ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کا کہا ہے۔
ترک صدر کا یہ حکم بظاہر دو روز قبل ہونیوالے باغی فوجیوں کے اس اقدام کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت جنگی طیاروں کو قبضے میں لے کرانقرہ میں ملکی پارلیمان، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
استنبول میں واقع "یاسل کوئے" کی ائیر فورس اکیڈمی پر پیر کو علی الصبح پولیس کے خصوصی دستوں کی جانب سے شروع کی گئی کارروائی شام تک جاری رہی۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی باغی فوجیوں کی گرفتاریوں اور ان کے زیر قبضہ رہنے والے فوجی سازوسامان اور اسلحے کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔
ترکی کے ایک معروف تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے اہم ساحلی شہر ازمیر سے تیرہ جرنیلوں سمیت فوج کے 81 افسران کو حراست میں لیا گیا ہے۔ عدالت نے گرفتار کیے گئےتیرہ میں سے آٹھ فوجی جرنیلوں کو ازمیر کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔عدالت نے ان فوجی ملزمان کو تفتیش کے لئے متعلقہ حکام کے حوالے کر نے کا حکم دیا ہے۔گرفتار کیے گئے جرنیل اور دیگر اعلی فوجی عہدیدار ترک پولیس کی انسداد دہشت گردی برانچ کی تحویل میں ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کے روز تیس شہروں کے گورنروں اور پچاس اعلی حکومتی عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
یورپی یونین کے رہنماوں اور ملک کے اندر سے حزب اختلاف کی بعض جماعتوں نے حکومتی رد عمل کے دوران قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھنے پر زور دیا ہے۔ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت پیپلز رپبلکن پارٹی نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہےکہ فوجی بغاوت کرنے اور ان کی معاونت کے جرم میں گرفتار ہونیوالوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کو دشمن بنا کر پیش نہ کیا جائے۔
ترکی کےوزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ فوجی بغاوت کرنیوالوں کے خلاف جاری کارروائی میں اب تک ساڑھے سات ہزار افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔پیر کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ "گرفتار کیے گئے افراد میں چھ ہزار فوجی ،ایک سو پولیس افسران،ساڑھے سات سو جج اور پراسیکیوٹرز اور ساڑھے چھ سو سویلین شامل ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ان میں سے تین سو سولہ کو عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نےکہا کہ ناکام فوجی بغاوت کے نتیجے میں 208 افراد ہلاک ہوئے ان میں 145 عام شہری، 60 پولیس اہلکار اور تین فوجی شامل ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ساڑھے چودہ سو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ترک صدر کی جانب سے جمعے کی رات میں کی گئی اپیل کے بعد سے سڑکوں پر نکلنے والے بغاوت مخالف مظاہرین ابھی تک ملک کے مخلتف مقامات پر سڑکوں پر ہیں۔صدر ایردوان نے ہفتے کے روز استنبول میں اپنی رہائش گاہ کے باہر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے تک باہر رہنے کی ہدایت کی تھی۔ سینکٹروں کی تعداد میں مظاہرین استنبول کے تاریخی تقسیم اسکوائر پر جمع ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں صدر ایردوان کی طرف سے واپس جانے کا نہیں کہا جائے گا وہ واپس نہیں جائیں گے۔
مظاہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مظبوطی کے لئے ایک طویل جدوجہد کے لئے تیار ہیں۔ اسی دوران فوجی بغاوت کے دوران مارے جانیوالے شہریوں اور پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ کی ادائیگی بھی جاری ہے۔
فوجی بغاوت کی مزاحمت کے دوران مارے جانیوالوں کے تابوتوں کو ترکی کے لال ہلالی پرچم میں لپیٹ کر جب جنازہ گاہ لایا جاتا ہے تو وہاں بڑی تعداد میں لوگ ان کی نمازہ جنازہ میں شریک ہونے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔صدر ایردوان اور وزیراعظم یلدرم بھی ان میں سے بعض جنازوں میں شریک ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے فوجی بغاوت کی مزاحمت کے دوران زخمی ہونیوالوں کی عیادت بھی کی ہے۔