1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے بلغاریہ کے ساتھ اپنی سرحد دوبارہ کھول دی

عاطف توقیر18 جولائی 2016

ترکی نے بلغاریہ کے ساتھ اپنی سرحد ایک مرتبہ پھر کھول دی ہے۔ یہ سرحد ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہفتے کی صبح بند کر دی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1JQfg
Griechenland Flüchtlinge in Athen
تصویر: DW/D. Cupolo

بلغاریہ کے وزیراعظم بوئکو بوریسوف کے مطابق ترک حکام کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کو یہ سرحد عبور کرنے سے روکا جائے گا، جس کے بعد ترکی اور بلغاریہ کی سرحدی کراسنگ دوبارہ کھول دی گئی ہے۔

بلغاریہ کے وزیراعظم کے مطابق اس دوران تارکین وطن کی جانب سے غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے واقعات میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔ بوریسوف نے ترک سفیر سے ملاقات کے بعد بتایا کہ انقرہ حکومت اس سرحد کے ذریعے مہاجرین کو یورپی یونین میں پہنچنے سے روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ مہاجرین کو بلغاریہ کی سرحد عبور کرنے سے روکا جائے گا۔

Bulgarien Bojko Borissow Premierminister beim EU Flüchtlingsgipfel in Brüssel
ترکی سے بلغاریہ کے راستے بھی مہاجرین مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیںتصویر: picture alliance/AA

ترکی میں حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کے تناظر میں مہاجرین کی ممکنہ آمد کو روکنے کے لیے بلغاریہ نے ترک سرحد پر واقع کراسنگ پر اپنے دو سو تیس اضافی فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سرحد پر بلغاریہ پہلے ہی خار دار تار لگا چکا ہے، تاکہ غیرقانونی تارکین وطن ملک میں داخل نہ ہو پائیں۔

بوریسوف نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’ہم ترک حکام سے رابطے میں ہیں۔ ہم نے ترک وزیراعظم اور سفیر سے بات چیت کی ہے۔ مجھے پوری یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس سرحد سے مہاجرین بلغاریہ میں داخل نہیں ہوں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ترکی میں موجود شامی، عراقی اور افغان تارکین وطن مہاجر بستیوں میں پرامن ہیں اور ترکی میں حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کے تناظر میں ان کی نقل و حرکت پر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی ان کی جانب سے ملک سے فرار ہو کر یورپی یونین پہنچنے کی کوئی بڑی کوشش سامنے آئے ہے۔

خیال رہے کہ ہفتے کے روز پورا دن بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ سے ترک شہروں استنبول اور انطالیہ کے لیے پروازیں بھی منتقطع رہیں۔ ترک حکومت کا تاہم کہنا ہے کہ اب ملک میں حالات قابو میں ہیں اور معمولات زندگی بحال ہو چکے ہیں۔