ترکی نے شامی صدر کے حوالے سے پالیسی کیوں تبدیل کی؟
22 اگست 2016نیوز ایجنسی اے پی کے ایک تجزیے کے مطابق صدر اسد کے مخالفین نے ہمیشہ یہی چاہا ہے کہ صدر اسد کسی نہ کسی طریقے اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اب شاید شام کی اس جنگ میں ایک موڑ آنے والا ہے اور ترکی، صدر اسد کی تمام تر زیادتیوں کے باجود، ایک غیر معینہ عبوری دور میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ہفتے کے دن ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے ایک غیر متوقع بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اسد اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ تمام شامیوں کو ایک جگہ جمع کر سکیں لیکن دوسری طرف عبوری دور کے لیے اسد سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
اس بیان سے پہلے تک ترکی کی ہمیشہ یہی خواہش اور پالیسی رہی تھی کہ صدر اسد کو اقتدار میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ترکی نے نہ صرف لاکھوں شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی بلکہ بعض اندازوں کے مطابق کئی ایسے گروپوں کو بھی مدد فراہم کی، جو صدر اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
انقرہ حکومت کی طرف سے اسد مخالف باغیوں کی حمایت کرنے کے پیچھے متعدد وجوہات تھیں۔ ترکی کوئی عرب ملک تو نہیں ہے لیکن یہ ایک سُنی ملک ہے اور اس کے حق میں یہی بہتر تھا کہ دمشق پر علوی شیعوں کی بجائے کوئی سُنی حکومت ہو۔ اس کے علاوہ ترکی نیٹو کا رکن ملک بھی ہے اور مغربی ممالک بھی اسد کے آمرانہ نظام کا خاتمہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اسد کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ترکی کو تمام مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔
ان تمام تر حقیقتوں کے باوجود اب خطے کی زمینی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ شامی کُرد داعش کے خلاف اہم طاقت بن کر ابھرے ہیں اور ترک سرحد کے قریب ایک وسیع علاقے کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان کردوں کے طاقتور ہونے کی وجہ سے ترکی میں اقلیتی کردوں کے حوصلے بلند اور طاقت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ انقرہ حکومت کے لیے ایک انتہائی پریشان کن امر ہے۔
ترک حکومت ایک عرصے سے علیحدگی پسند کردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں ان کردوں کے جوابی حملوں میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انقرہ حکومت شامی مہاجرین کا بوجھ اٹھا اٹھا کر بھی تھک چکی ہے۔ اس وقت بیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ترکی کی شامی صدر اسد کے بارے میں بدلتی ہوئی رائے کے پیچھے اس ملک میں ہونے والی حالیہ ناکام بغاوت کا بھی ہاتھ ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا تھا کہ بغاوت کے بعد انہیں مغربی ممالک کی وہ حمایت نہیں ملی جو کہ ملنی چاہیے تھی۔ اس کے ردعمل میں ترکی روس کے قریب ہوا ہے اور دو ہفتے پہلے ترک صدر کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے دوستانہ ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ روس کے ساتھ ترکی کی قربت کا بھی صدر اسد کے بارے میں اس کی تبدیل ہوتی ہوئی رائے میں اہم کردار ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب فتح اللہ گولن کا معاملہ بھی امریکا اور ترکی کے تعلقات میں دوریاں لا رہا ہے۔
یوریشیا کنسلٹنسی گروپ کے ساتھ وابستہ اور مشرق وسطیٰ کے امور کے تجزیہ کار ایہام کمال اس بارے میں کہتے ہیں، ’’روس کے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے ترکی کا اسد سے متعلق رویہ نمایاں طور پر لچکدار ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں شامی حکومتی فورسز نے امریکا کے حمایت یافتہ کردوں کے خلاف غیرمتوقع بمباری شروع کر دی ہے۔ اس سے انقرہ کو یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ صرف اسد ہی قابل بھروسہ پارٹنر ہے اور وہ ہی کردوں کو کنٹرول میں رکھ سکتا ہے۔‘‘
اس تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا، ’’میرے خیال سے یہ صرف فریقین کی طرف سے رقص کا آغاز ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اشارے دے رہے ہیں کہ کردوں کے حوالے سے مشترکہ مفادات پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی ممالک بھی یہ دیکھ چکے ہیں کہ سن 2011 میں شروع ہونے والی ’عرب بہار‘ کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ لیبیا میں آج بھی مسلح گروپوں کے مابین جنگ جاری ہے جبکہ شام اور یمن بھی اپنی بقاء کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تو خاتمہ کر دیا گیا لیکن اس کے بعد کے حالات میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مغرب شام کی دلدل سے خوفزدہ ہو چکا ہے کیوں کہ ہزاروں شامی مہاجرین یورپ پہنچے ہیں اور مغربی ممالک میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہے۔
ترکی کی صدر اسد کے بارے میں تبدیل ہوتی ہوئی رائے کے بعد ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مغربی ممالک بھی عبوری وقت کے لیے صدر اسد کے ساتھ مذاکرات کرنے کو بامعنی قرار دے دیں۔ کیوں کہ یہ خوف بھی لاحق ہے کہ جہادی گروپ صدر اسد سے بھی بُرا اور آمرانہ طرز حکومت اپنے ساتھ لا سکتے ہیں۔