1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کا امریکا پر ’منافقت اور دوہرے معیارات‘ کا الزام

امجد علی27 مئی 2016

ترکی نے شام میں کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کی مدد کرنے پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں اپنے حلیف امریکا پر ناقابلِ قبول طرزِ عمل کا الزام عائد کیا ہے۔ واضح رہے کہ ترکی اس ملیشیا کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Iw7N
Türkischer Außenminister Cavusoglu
ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولوتصویر: AFP/Getty Images/A. Altan

ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو نے کہا کہ امریکا ’منافقت‘ اور ’دوہرے معیارات‘ روا رکھے ہوئے ہے۔ ترکی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کی اُن تصاویر پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے، جن میں کئی امریکی کمانڈوز کو شمالی شام میں کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ (کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس) کی مدد کرتے، حتیٰ کہ اُس کا علامتی نشان پہنے دکھایا گیا تھا۔ یہ امریکی فوجی آئی ایس کے گڑھ الرقہ کے خلاف کرد عرب سیریئن ڈیموکریٹک فرنٹ (SDF) کی ایک بڑی کارروائی کے دوران اُن کی مدد کر رہے تھے۔ اس فرنٹ کا ایک بڑا حصہ کرد جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔

انقرہ حکومت وائی پی جی نامی اس ملیشیا کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتی ہے جبکہ امریکا اسے شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑنے والی مؤثر ترین قوت سمجھتا ہے۔

انقرہ حکومت کا موقف ہے کہ وائی پی جی نامی کرد ملیشیا ترکی کے اندر درجنوں افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے حملوں میں ملوث رہی ہے اور دراصل ترک ریاست کے خلاف تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے برسرِپیکار کالعدم کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کی شامی شاخ ہے۔ امریکا پی کے کے کو تو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتا ہے تاہم وہ وائی پی جی کے معاملے میں ترکی کا ہمنوا بننے سے کترا رہا ہے۔

غصے میں آئے ہوئے چاوش اولو نے جنوبی تعطیلاتی مقام انطالیہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی تلخ لہجے میں کہا: ’’ہم اُنہیں (امریکی دَستوں کو) مشورہ دیتے ہیں کہ جب وہ شام کے دیگر علاقوں میں جائیں تو داعش (’اسلامک اسٹیٹ‘) یا النصرہ (القاعدہ سے قربت رکھنےوالی تنظیم) کے بَیجز لگا لیا کریں یا افریقہ جائیں تو بوکو حرام کے بَیج آویزاں کر لیا کریں۔ اور اگر وہ ان گروپوں کو وائی پی جی ہی کی طرح نہیں سمجھتے تو پھر یہ دوہرا معیار اور منافقت ہے۔‘‘

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے ترک ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر سونر کگپتے نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تنازعہ امریکا اور ترکی کے باہمی تعلقات میں موجود ایک دیرینہ مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دراصل ترکی اور امریکا شام میں دو مختلف جنگیں لڑ رہے ہیں۔

Syrien Provinz Rakka US-Soldaten Spezialkräfte YPG-Allianz
شام میں داعش کے گڑھ الرقہ کے خلاف تازہ حملے میں امریکی فورسز کو وائی پی جی کے کرد عسکریت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑتے دیکھا جا سکتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

جہاں واشنگٹن حکومت اپنی توجہ آئی ایس پر مرکوز کیے ہوئے ہے، وہاں ترکی بدستور صدر بشار الاسد کی حکومت کو شکست سے دوچار کرنے پر کام کر رہا ہے۔ دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے پر پایا جانے والا اختلافِ رائے امریکا اور ترکی کے باہمی تعلقات میں زہر گھول رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید