ترکی کے خلاف بل رکوانے کی کوشش کریں گے، ہلیری کلنٹن
6 مارچ 2010ہلیری کلنٹن نے ایک بیان میں کہا، ’ہم اس فیصلے کے خلاف ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ اب کانگریس اس موضوع پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔‘
امریکی کانگریس کے ایک پینل نے منگل کو ایک قرار داد منظور کی تھی، جس میں پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکی کو مسیحی آرمینیائی آبادی کی نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اب یہ قرار داد توثیق کے لئے کانگریس کے ایوان نمائندگان کو پیش کی جائے گی، جہاں اس کے حق میں اکثریتی ووٹوں کا واضح امکان ہے۔
کانگریس کی اس کمیٹی نے دو سال قبل بھی ایسی ہی قرارداد منظور کی تھی۔ تاہم اس وقت سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دباؤ پر اسے توثیق کے لئے ایوان نمائندگان کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس 2008ء میں اپنی صدارتی مہم کے دوران باراک اوباما نے بڑے پیمانے پر کی گئی قتل و غارت کو ’نسل کشی‘ قرار دینے کا وعدہ کیا تھا۔
دوسری جانب انقرہ حکومت تسلیم کرتی ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران زیادتیاں ضرور ہوئیں، تاہم وہ سب جنگ کا حصہ تھیں اور آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ترکی نے اس پیش رفت پر سخت احتجاج کیا ہے۔ انقرہ حکام امریکہ سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لئے واپس بھی بلا چکے ہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک پر ایک ایسے جرم کا الزام لگایا گیا ہے، جس کا ارتکاب ہی نہیں ہوا۔ ان کا یہ بھی کہنا کہ اس قرار داد سے ترکی اور امریکہ کے باہمی تعلقات متاثر ہوں گے۔
ترک صدر عبداللہ گُل کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے ردعمل میں ان کا ملک کسی طرح کے منفی نتائج کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
آرمینیائی عوام پہلی عالمی جنگ کے دوران کی قتل و غارت کو بین الاقوامی سطح پر نسل کشی تسلیم کئے جانے کے لئے مہم چلاتے رہے ہیں جبکہ 20 سے زائد ممالک اسے تسلیم بھی کر چکے ہیں۔
افغانستان اور عراق میں استحکام لانے کی امریکی کوششوں میں انقرہ واشنگٹن کا اہم حلیف ہے۔ ساتھ ہی مغربی مارکیٹوں کو تیل و گیس کی فراہمی کے لئے اہم رُوٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن بھی ہے جبکہ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے لئے بھی کوشاں ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبررساں ادارے
ادارت: عابد حسین