ترین کا ممکنہ گروپ: پاکستانی سیاست میں ہل چل
19 مئی 2021جہانگیر ترین نے آج لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ کوئی فارورڈ بلاک بنانے نہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی انہوں نےا بھی فارورڈ بلاک بنایا ہے لیکن ان کے قریبی دوستوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کے خلاف کارروائیاں نہ رکیں تو ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی ہلچل مچ سکتی ہے۔
جہانگیر ترین کے ایک قریبی سیاسی ساتھی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا، "جہانگیر ترین کے ساتھ تقریبا 12 ارکان قومی اسمبلی اور تیس سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی ہیں۔ جہانگیر ترین چاہتے ہیں کہ معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں لیکن اگر ان کے خلاف کارروائی اسی طرح چلتی رہی تو پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور مرکز میں بھی سیاسی ہلچل مچے گی۔‘‘
سیاسی انتقام
پی ٹی آئی کے اس رہنما کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے ہوش کے ناخن لینے کے بجائے انتقامی کارروائیوں کو تیز کردیا ہے۔ "رحیم یار خان کے ایک وفاقی وزیر کے پاس 10 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز ہیں۔ یہ فنڈز ترین کے قریبی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو نہیں دیے جارہے، جو اگلے انتخابات سے پہلے اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ عثمان بزدار نے جہانگیرترین گروپ کے افراد کو بلا کر لالچ دینے کی بھی کوشش کی اور دوسرے طریقوں سے بھی ان کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ جہانگیر ترین کی حمایت ترک کر دیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔‘‘
ترین مخالف گینگ
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کا مزید کہنا تھا کہ لاہور سے ایک وفاقی وزیر اور ملتان سے ایک دوسرے وفاقی وزیر جہانگیرترین کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ "اس کے علاوہ ایک غیر منتخب معاون خصوصی بھی جہانگیر ترین کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ عثمان بزدار کا صرف ایک ووٹ ہے۔ پنجاب کی کئی نشستوں پر عمران خان کے ممکنہ طور پر ذاتی حیثیت میں پانچ سے دس ہزار ووٹ ہونگے لیکن ان نشستوں پر جو روایتی سیاستدان انتخابات لڑتے ہیں ان کے ووٹوں کی تعداد چالیس سے پچاس ہزار کے قریب ہوتی ہے۔ لہذا یہ سیاسی طور پر عدم پختگی کا ثبوت ہے کہ عمران خان ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دیں اور جہانگیر ترین کے خلاف کارروائیاں نہ رکوائیں۔‘‘
مسئلے کا حل
ملک کے کئی حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان دوریاں بڑھتی جارہی ہے خصوصا اس گروپ کی تشکیل کے بعد فاصلے مزید پڑھیں گے۔ تاہم سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ ان فاصلوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عمران خان نے خود بیرسٹر علی ظفر کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر اور ثبوتوں کی جانچ پڑتال کریں اور وزیراعظم کو رپورٹ پیش کریں۔ میرا خیال ہے کہ حکومتی حلقوں کو اس رپورٹ کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے اور جہانگیر ترین گروپ کی طرف سے بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دونوں طرف سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘
عمران خان کو مستعفی ہوجانا چاہیے
نون لیگ کے رہنما اور سابق سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان اکثریت کھوچکے ہیں اور ان کو فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "سیاسی جماعتوں کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی ان کو چھوڑ گئے ہیں یا علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پارلیمنٹ میں اکثریت ختم ہوگئی ہے۔ اگر یہ دنیا کی کسی جمہوری ملک میں ہوتا تو وہاں وزیراعظم استعفیٰ دے چکا ہوتا۔ عمران خان مغربی جمہوری ممالک کی بڑی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ اکثریت کھونے کے بعد وہ استعفیٰ دے دیں۔ میرے خیال میں عمران خان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔‘‘
جاوید عباسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جہانگیر ترین نے ابھی تک نون لیگ سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ "لیکن اگر وہ رابطہ کرتے ہیں تو پھر پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کیا کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں اگر مرکز اور پنجاب میں حکومت گرتی ہے اور فوری طور پر الیکشن ہوتے تو پارٹی کو جہانگیرترین کا ساتھ دینا چاہیے۔ بصورت دیگر ترین کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔‘‘
مشکل وقت
جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ آنے والے مہینے عمران خان کے لیے بہت مشکل ہوں گے۔ "عمران خان کو پہلے ہی سیاسی طور پر بہت سارے چیلنجیز کا سامنا ہے اور اب یہ گروپ بھی نمودار ہو گیا ہے جو پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کو بجٹ پاس کرنے سے روک بھی سکتا ہے یا اس میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے بجٹ سے پہلے یا بجٹ کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے بہت ساری مشکلات پیدا ہوں گی۔ ملک میں غیر سیاسی کیفیت پیدا ہوچکی ہے اور اب یہ قائم رہے گی۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ "اسٹبلشمنٹ شروع سے ہی عثمان بزدار کو پسند نہیں کرتی اور اس کے خلاف ناراضگی کا اظہار بھی کر چکی ہے لیکن عمران خان عثمان بزدار کو وزیراعلی رکھنے پر بضد ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے بھی جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس میں اختلاف ہے۔ خارجہ امور کے کچھ پہلوؤں پر بھی وزیراعظم عمران خان اور طاقت ور حلقے ایک پیج پر نہیں ہیں۔ تو میرے خیال میں ان تمام اختلافات کے پیش نظر اسٹبلشمنٹ نے جہانگیر ترین کو کھڑا کیا ہے تاکہ عمران خان پر دباؤ ڈالا جا سکے اور اختلافی امور کو اسٹیبلشمنٹ کی منشاء کے مطابق حل کیا جاسکے۔‘‘