تریپن سال بعد بیت المقدس میں حرم الشریف نمازیوں کے لیے بند
23 مارچ 2020حرم الشریف میں عام مسلمانوں کا نماز کے لیے داخلہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے غیر معینہ مدت کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے احاطے کا انتظام اردن کی سربراہی میں ایک اسلامی مقتدرہ کے پاس ہے۔ اس اتھارٹی نے اتوار بائیس مارچ کی رات اعلان کر دیا تھا کہ حرم الشریف کو مجبوراً لیکن ہر قسم کے عام شہریوں اور نمازیوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔
ساتھ ہی وقف کہلانے والی اس مقتدرہ نے اپنے ایک بیان میں مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا، ''تمام مسلمان عبادت گزاروں سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ حرم الشریف کی بندش کا فیصلہ طبی حوالے سے پائے جانے والے جائز اور قابل فہم خدشات کی بنا پر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں سے یہ درخواست بھی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھیں۔
شاذ و نادر کیا جانے والا فیصلہ
یروشلم میں، جسے مسلمان بیت المقدس کہتے ہیں، مسجد اقصیٰ کے حرم الشریف کہلانے والے احاطے کی بندش ایک ایسا انتہائی اقدام ہے جو عشروں بعد ہی کبھی کبھار دیکھنے میں آتا ہے۔ آج سے پہلے حرم الشریف کو نمازیوں کے لیے آخری مرتبہ انیس سو سڑسٹھ میں اس وقت بند کیا گیا تھا، جب تریپن برس قبل عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین جنگ ہوئی تھی۔
یہ جگہ دنیا کے تینوں بڑے الہامی مذاہب کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ مسلمانوں کے لیے مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کی وجہ سے جو سعودی عرب کے شہر مکہ میں خانہ کعبہ کے قبلہ قرار دیے جانے سے قبل مسلمانوں کا قبل اول تھا۔ اسی لیے آج بھی مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ میں پیغمبراسلام کی آخری آرام گاہ والی مسجد نبوی کے بعد یروشلم میں حرم الشریف مسلمانوں کے لیے دنیا کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
اسی طرح یروشلم شہر کے قدیمی حصے کا وہ پہاڑی علاقہ جہاں حرم الشریف واقع ہے اور جسے انگریزی میں ٹیمپل ماؤنٹ کہا جاتا ہے، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے بھی انتہائی زیادہ مذہبی تقدیس کا حامل علاقہ ہے۔ یہودیوں کے لیے دنیا کا مقدس ترین مقام وہ دیوار گریہ ہے، جو اسی ٹیمپل ماؤنٹ کا حصہ ہے، جو مسجد اقصیٰ کے سنہری گنبد سے زیادہ دور نہیں اور جسے مسلمان عربی میں حائط البراق کہتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ اور قبہ الصخرہ پہلے ہی سے بند
قبل ازیں اسرائیلی حکام کی طرف سے گزشتہ اتوار کے روز مسجد اقصیٰ اور اس سے متصل ڈوم آف دا روک یا قبہ الصخرہ کو بھی غیر معینہ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اس بندش کے بعد سے مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ کے احاطے یا حرم الشریف میں نماز کی ادائیگی کی اجازت تھی مگر اسلامی مقتدرہ نے اب وہ بھی منسوخ کر دی ہے۔
اب وہاں پر صرف ان چند گنے چنے مسلمانوں کو ہی نماز کی اجازت ہو گی،جو حرم الشریف کے اندر ہی ہوتے ہیں اور اس مقدس مقام کی دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں۔ یہ مسلم ملازمین آئندہ بھی وہاں موجود رہیں گے اور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
مسلمانوں کے لیے یہ مقام اس وجہ سے بھی انتہائی مقدس ہے کہ مسلم عقیدے کے مطابق پیغمبر اسلام اسی مسجد اور اس کے احاطے سے ایک براق پر سوار ہو کر شب معراج کو آسمان پر گئے تھے۔ اسی کا ایک اہم حوالہ وہ دیوار گریہ بھی ہے، جسے عربی میں حائط البراق کہتے ہیں۔
الاقصیٰ انتفاضہ
یروشلم میں حرم الشریف مسلمانوں کے لیے کتنا اہم اور حساس مقام ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر سن دو ہزار میں اس دور کے اسرائیلی وزیر دفاع آریئل شارون نے ٹیمپل ماؤنٹ اور حرم الشریف کا جو اچانک لیکن بہت متنازعہ دورہ کیا تھا، اس کے بعد فلسطینیوں کی ایک ایسی مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی تھی، جو طویل عرصے تک جاری رہی تھی اور جسے الاقصیٰ انتفاضہ کہا جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی سنہری گنبد والی مرکزی عمارت کی طرح اس مسجد کے احاطے یا حرم الشریف کو جانے والے تمام راستوں اور داخلہ گاہوں کو بھی اسرائیل کنٹرول کرتا ہے جبکہ حرم الشریف کا انتظام ایک فاؤنڈیشن یا وقف تنظیم کے پاس ہے۔ اسی تنظیم کی ہدایت پر الاقصیٰ مسجد کے ڈائریکٹر عمر الکسوانی نے حرم الشریف کو نمازیوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا۔
اسرائیل میں اب تک کورونا وائرس کے ایک ہزار سے زیادہ مصدقہ واقعات سامنے آ چکے ہیں جبکہ فلسطینی خود مختار انتطامیہ کے مطابق فلسطینی علاقوں میں بھی کووڈ انیس کے ساٹھ سے زیادہ کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔
م م / ع س، نيوز ايجنسياں