تعلیم کو عام کرنے کے لیے شاہ زمان کی جدوجہد
1 ستمبر 2015
چوبیس سالہ شاہ زمان کی یہ خواہش ہے کہ نا صرف اس کے علاقے بلکہ پورے پاکستان کے بچے، بچیاں اسکول جائیں اور تعلیم حاصل کریں۔ شاہ زمان نے ابتدا گلگت بلتستان اور چترال کے پس ماندہ علاقوں کے غریب بچوں کی تعلیم سے کی۔ بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ ساتھ شاہ زمان اپنے دوستوں اور اساتذہ کی مدد سے ضرورت مند طلبا کے اسکولوں کی فیسز بھی ادا کرتے ہیں۔ شاہ زمان اپنے علاقے میں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں، ’’گلگت اور چترال تعلیم کے میدان میں کافی پیچھے تصور کئے جاتے ہیں۔ یہاں پر تعلیم کی مخالفت بھی کی جاتی رہی لیکن اب لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے اور لوگ تعلیم کی اہمیت سے واقف ہو رہے ہیں۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاہ زمان نے اپنی طرح کے دوسرے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی اس مہم کا حصہ بنایا تاکہ اس کے دائرے کو مزید وسیع کیا جا سکے۔ سن دو ہزار دس میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شاہ زمان نے ’مِلکی وے موومنٹ‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی، جس کا کام غریب و نادار طلبہ و طالبات کو بغیر کسی معاوضے کے معیاری تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ اس ادارے کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،’’بچوں کے حقوق کی حفاظت اور تعلیم ہمارے بنیادی مقاصد تھے۔ شروعات میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بہتر ہو گیا۔ مِلکی وے موومنٹ نے اب تک قریب پانچ سو طلبہ و طالبات کی تعلیم کے میدان میں مدد کی ہے، جس میں نرسری سے اعلیٰ تعلیم تک کے بچے شامل ہیں۔‘‘
شاہ زمان کہتے ہیں کہ ہر تعلیم یافتہ فرد کو ان پانچ سوالوں پر سوچنا چاہیے، ’’ایک بندہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے لئے کیا کر رہا ہے، اپنے خاندان کے لئے کیا کر رہا ہے، اپنے معاشرے کو کیا دے رہا ہے، اپنے ملک کے لئے کیا کر رہا ہے اور دنیا کے لئے کیا کر رہا ہے؟ اگر کوئی ان سب سوالوں کے جوابات دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہے۔‘‘
شاہ زمان کے قائم کردہ ادارے میں وائس چیئرمین کے عہدے پر کام کرنے والے راجہ قمر زمان کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے ادارے کے زیر نگرانی 124طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے 87 لڑکیاں ہیں، جس سے چترال اور گلگت میں خواتین کی تعلیم میں دلچسپی واضح ہوتی ہے۔ اپنے ادارے کے اخراجات کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کا ماہانہ خرچ قریب ایک لاکھ بیس ہزار روپے ہے جس میں ملک بھر سے صاحب استطاعت لوگ ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ان کا ادارہ تعلیم کے علاوہ مختلف آگاہی سمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کرتا ہے، جس میں صفائی مہم، صحت اور ماحولیات کے تحفظ جیسے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ راجہ قمر کہتے ہیں کہ شاہ زمان کی مہم کا حصہ ہونے پر ان کو فخر ہے اور دوسرے لوگوں کی مدد کرنے سے اب ان کوخوشی محسوس ہوتی ہے۔
شاہ زمان اور اس کے ساتھیوں کا نیٹ ورک نہ صرف پاکستان میں پھیلا ہوا ہے بلکہ دنیا بھر سے ستر سے زائد ممالک کے نوجوانان بھی اس یوتھ موومنٹ میں ان کے ساتھ شریک ہیں جو کہ اپنے اپنے علاقے میں تعلیم کو عام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
گلگت بلتستان اور چترال جیسے پس ماندہ علاقوں میں علم کی روشنی پھیلانے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے اعتراف میں یونائٹیڈ نیشن ڈیویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی طرف سے2014 ء میں شاہ زمان کو این پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شاہ زمان دنیا بھر میں یہ ایوارڈ لینے والے کم عمر ترین نوجوان ہیں۔
چترال کے ایک نجی اسکول میں بارہویں جماعت کی طالبہ سدرہ کہتی ہیں کہ اس کے والدین نے استطاعت کے مطابق میٹرک تک اس کے تعلیم کے اخراجات برداشت کیے اس کے بعد اسے گھر تک ہی محدود رہنا تھا، ’’میٹرک کے بعد غربت کی وجہ سے میرے لئے تعلیم حاصل کرنا ناممکن تھا لیکن شاہ زمان اور اس کے ٹیم نے مجھے سپورٹ کیا اور ان کے مقرر کردہ وظیفے (سکالرشپ) کی وجہ سے اب میں سیکنڈ ایئر پری میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہوں۔ انشاء اللہ ڈاکٹر بن کر میں بھی لوگوں کی مدد کروں گی۔‘‘
بیس سالہ آصفہ کا کہنا ہے کہ شاہ زمان اور ان کے ٹیم نے ان کی معاشی طور پر مدد کے علاوہ دوسرے معاملات زندگی میں بھی رہنمائی کی۔ گو کہ وہ ایک طالبہ ہے لیکن وہ خود کو شاہ زمان کے ٹیم کا حصہ سمجھتی ہے اور اپنے علاقے کے تمام لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ شاہ زمان سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو تعلیم اور اچھے کاموں کی طرف راغب کرنا سب کی ذمہ داری ہے، ’’ہم کسی پر احسان نہیں کر رہے ہیں اگر ہر فرد اس کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر لوگوں کی مدد شروع کر دے تو وہ دن دور نہیں کہ سب بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔‘‘ شاہ زمان اپنے علاقے، اپنے ملک اور دنیا بھر کے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ نیک اور اچھے کام کی شروعات میں دیر نہ کریں اور پہلا قدم اپنے گھر اور علاقے سے اٹھائیں۔