تقریباً ایک تہائی پاکستانی خواتین ذیابیطس کا شکار
14 نومبر 2024بدھ 13 نومبر کے روز شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں ذیابیطس کے شکار بالغ افراد کی شرح دگنی ہو گئی ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ بیماری سب سے زیادہ تیزی سے پھیلی ہے۔
کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بھی ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھی ہے۔ پاکستان میں اس وقت کم از کم 33 ملین باشندے اس بیماری کا شکار ہیں۔ انٹرنیشنل ڈائیبیٹیز فیڈریشن کے مطابق پاکستان اس معاملے میں عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہے۔
پروسیسڈ اور چکنائی سے بھرپور غذائیں، زندگی گزارنے کے غیر صحت مندانہ طریقے جبکہ جسمانی اور ذہنی دباؤ کے ساتھ ساتھ تیز رفتار طرز زندگی بھی ان چند عوامل میں شامل ہیں، جو پاکستان میں ذیابیطس کی بیماری کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ بن رہے ہیں۔
ذیابیطس کی عالمی شرح دو گنا ہو گئی
دی لینسیٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق کے مطابق اس بیماری نے سن 2022 میں دنیا بھر کے تمام بالغوں میں سے تقریباً 14 فیصد کو متاثر کیا اور یہ شرح سن 1990 میں فقط سات فیصد تھی۔ محققین کی ٹیم نے بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا ہے کہ سن 1990 میں 200 ملین سے بھی کم افراد اس مرض کا شکار تھے جبکہ اب 800 ملین سے بھی زیادہ انسان ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔
ان اعداد و شمار میں ذیابیطس کی دونوں اہم اقسام شامل ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس مریضوں کو چھوٹی عمر سے متاثر کرتی ہے اور اس کا علاج کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ انسولین کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس بنیادی طور پر درمیانی عمر یا بڑی عمر کے انسانوں کو متاثر کرتی ہے، جو انسولین کے لیے اپنی حساسیت کھو دیتے ہیں۔
ہر چوتھا بالغ پاکستانی ذیابیطس کا شکار
عالمی سطح پر مختلف ممالک میں اس بیماری کے حوالے سے اعداد و شمار بھی مختلف ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ ذیابیطس کی شرح کچھ امیر ممالک، جیسے کہ جاپان، کینیڈا یا مغربی یورپی ممالک میں، یکساں رہی یا یہاں تک کہ کم ہو گئی۔ اس ریسرچ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''ذیابیطس کا بوجھ کم فی کس آمدنی والے اور درمیانی فی کس آمدنی والے ممالک پر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں پاکستان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جہاں تقریباً ایک تہائی خواتین اب ذیابیطس کا شکار ہیں۔ ایسی پاکستانی خواتین کی تعداد سن 1990 میں کل آبادی کے دسویں حصے سے بھی کم تھی۔ محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موٹاپا ٹائپ ٹو ذیابیطس کی ایک ''اہم وجہ‘‘ ہے اور یہ غیر صحت بخش غذاؤں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امیر اور غریب ممالک میں ذیابیطس کے علاج میں پایا جانے والا فرق بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
ا ا / م م (اے ایف پی، ڈبلیو ایچ او)