’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے‘
31 جولائی 2014اُن کے انتقال سے جہان موسیقی کا وہ آفتاب غروب ہو گیا، جس کا شاندار کیریئر 1940ء کے لگ بھگ شروع ہوا تھا اور جو چالیس سال تک موسیقی کے آسمان پر جگمگاتا رہا۔ اس سال اس آفتاب کو غروب ہوئے چونتیس برس ہو رہے ہیں لیکن اپنے چار عشروں پر پھیلے ہوئے کیریئر کے دوران محمد رفیع نے جو ہزارہا گیت گائے، وہ موسیقی کے آسمان پر دمکتے ایسے ستارے ہیں کہ جن کی روشنی رہتی دنیا تک شائقین موسیقی کے دلوں کو جگمگاتی رہے گی۔
محمد رفیع کے مختلف زبانوں میں گائے گئے گیتوں کی تعداد کا اندازہ پچیس اور چونتیس ہزار کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ وہ چوبیس دسمبر 1924ء کو امرتسر کے قریب کوٹلہ سلطان سنگھ میں ایک متوسط مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد حاجی علی محمد اہلِ خانہ کے ساتھ 1935ء میں لاہور منتقل ہو گئے۔
محمد رفیع اپنے گاؤں کی گلیوں میں پھرنے والے ایک فقیر کی نقل کرتے ہوئے گایا کرتے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی جناب حمید صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی کے اندر چھپی فنکارانہ صلاحیتوں کا جلد ہی اندازہ ہو گیا اور پھر انہوں نے اپنی پوری توجہ محمد رفیع کو دنیائے موسیقی میں وہ مقا م دلوانے میں صرف کر دی، جس کے وہ بجا طور پر مستحق بھی تھے۔ سات سال کی عمر سے ہی محمد رفیع نے اپنے دور کے بڑے فنکاروں استاد بڑے غلام علی خاں اور استاد وحید خان سے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اُس دور کے نامور گائیک کے ایل سہگل کو ایک پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا تاہم عین وقت پر غالباً بجلی چلے جانے کے بعد اُنہوں نے گانے سے انکار کر دیا۔ تب محمد رفیع بھی وہیں موجود تھے، جنہیں اسٹیج پر آ کر اپنی آواز کا جادہ جگانے کا موقع دیا گیا۔ وہیں اُنہیں موسیقار شیام سندر جی نے پہلی مرتبہ سنا تھا۔
اُس وقت اُن کی عمر تقریباً بیس برس تھی، جب اُنہوں نے فلم ’گل بلوچ‘ کے لیے اپنا پہلا گیت پنجابی زبان میں ریکارڈ کروایا۔ یہ فلم اٹھائیس فروری 1944ء کو ریلیز ہوئی۔ شیام سندر جی محمد رفیع کی آواز سے اتنا متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے اپنی تمام آنے والی فلموں کے لیے رفیع صاحب کو پلے بیک سنگر کے طور پر بُک کر لیا۔ اگلے چار برسوں میں یعنی 1948ء تک محمد رفیع بمبئی کی فلمی دنیا میں بہت سی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے بعد پلے بیک گلوکار کے طور پر اپنا ایک مستحکم مقام بنا چکے تھے۔ اُسی دور میں محمد رفیع کو موسیقار نوشاد کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا اور پھر تو نغمہ نگار شکیل بدایونی، موسیقار نوشاد اور گلوکار محمد رفیع کی ایک ایسی ٹیم بن گئی کہ جس نے دنیائے موسیقی کو ایک سے ایک ہِٹ گیت دیا۔
محمد رفیع نے اپنے دور کے تقریباً سبھی بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ 1965ء میں بھارت کا اعلیٰ ترین اعزاز پدم شری حاصل کرنے والے محمد رفیع کی بے مثال آواز کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ نعت اور بھجن گا رہے ہوں یا غزل اور قوالی، المیہ گیت گا رہے ہوں یا طربیہ، ہمیشہ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے اُن کی آواز بنی ہی اُس مخصوص گیت کے لیے ہو۔ خاص طور پر شمی کپور پر فلمائے گئے اُن کے گیتوں میں شوخی اور چنچل پن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔
گوناگوں خوبیوں کی حامل آواز کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے سے اونچا یا دھیمے سے دھیما سُر بھی سہولت کے ساتھ گا لیتے تھے اور اتنی مہارت سے گاتے تھے کہ سننے والا اُس گیت کے مخصوص ماحول میں پہنچ جاتا ہے۔ لکشمی کانت اور پیارے لال کی موسیقار جوڑی کے ساتھ بھی محمد رفیع نے کام کیا۔ آنجہانی لکشمی کانت نے محمد رفیع کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا تھا کہ وہ اُن لوگوں کے لیے بھی گیت گا دیا کرتے تھے، جو کہتے تھے کہ اُن کے پاس کم پیسے ہیں یا معاوضہ ادا نہیں کر سکیں گے۔
اُنہوں نے، بچپن سے کلاسیکی موسیقی کی جو تعلیم حاصل کی تھی ،اُس کا عکس بھی اُن کے بہت سے گیتوں میں ملتا ہے۔ محمد رفیع کی طرح کے فنکار روز روز جنم نہیں لیتے۔ اُن کے انتقال کے چونتیس برس بعد بھی پلے بیک گلوکاری میں اُن کی طرح کا فنکار دور دور تک نظر نہیں آتا۔