توانائی کا بحران: تاریک شہر ہمارے لیے فائدہ مند کیسے؟
13 ستمبر 2022یہ روسی یوکرینی جنگ کے تناظر میں اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیدا شدہ بحران ہی کا نتیجہ ہے کہ جرمنی بھر کے شہروں نے رات کے وقت مشہور عمارات، تاریخی یادگاروں اور ٹاؤن ہالز، عجائب گھروں اور لائبریریوں جیسی عمارات کی روشنیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی مثال کے طور پر وکٹری کالم یا فتح کے ستون اور برلن کیتھیڈرل سمیت شہر کی پہچان سمجھی جانے والی تقریباﹰ 200 عمارات غروب آفتاب کے بعد اب تاریکی میں ہی ڈوبی رہتی ہیں۔
روشنی کی آلودگی کیا ہے اور ہمارے ليے کتنی نقصان دہ ہے؟
جرمنی میں یکم ستمبر سے نافذالعمل ہو چکے توانائی کی بچت سے متعلق وفاقی حکومت کے آرڈیننس کے تحت ملک بھر میں تمام عوامی عمارات کو روشنیوں کے ذریعے باہر سے منور کرنا قانوناﹰ ممنوع ہو چکا ہے اور عام نیون سائن بھی دن کے وقت محض چند گھنٹوں کے لیے ہی روشن رکھے جا سکتے ہیں۔
وسطی جرمنی کے شہر وائیمار نے تو اپنے پورے بلدیاتی علاقے میں توانائی کی بچت کے پروگرام پر اس سال موسم گرما کے ابتدائی مہینوں سے ہی عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت سڑکوں اور راہ گیروں کے لیے بنائے گئے راستوں پر لگی سٹریٹ لائٹس اب ہر شام آدھ گھنٹے کی تاخیر سے روشن کی جاتی ہیں اور ہر صبح آدھ گھنٹہ پہلے ہی بجھا دی جاتی ہیں۔
اس طرز عمل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یوں بجلی اور مالی وسائل کی بچت تو ہو گی ہی لیکن ساتھ ہی مقابلتاﹰ تاریک شہر تحفظ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی کئی حوالوں سے مثبت نتائج کا سبب بنیں گے۔
لائٹیں بند کرنا فضائی آلودگی کے خلاف بھی مددگار
امریکہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ڈارک اسکائی ایسوسی ایشن کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں رات کے وقت آؤٹ ڈور جلائی جانے والی لائٹوں میں سے ایک تہائی کا قطعاﹰ کوئی فائدہ ہوتا ہی نہیں۔ اس تنظیم کے ماہرین کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں حالیہ بےتحاشا اضافے سے پہلے بھی سچ یہی تھا کہ غیر ضروری لائٹیں بند کر کے سالانہ تقریباﹰ تین بلین یورو (تین بلین ڈالر) کی بچت کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اسی اقدام سے فضائی آلودگی اور زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے تحفظ ماحول کی کوششوں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا تھا اور یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے۔
مصر: معاشی مسائل کے حل کے لیے شہر کی اسٹریٹ لائٹس بند اور ایئر کنڈیشننگ کم
بھارتی ریاست اتر پردیش کی رانی لکشمی بائی سینٹرل زرعی یونیورسٹی سے منسلک ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کے ماہر پون کمار کے مطابق صرف بھارت میں ہی لائٹنگ کا حد سے زیادہ استعمال سالانہ 12 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں اخراج کی وجہ بنتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زہریلی کاربن گیس کا یہ حجم بھارت ہی میں سال بھر کے دوران فضائی اور سمندری راستوں سے آمد و رفت کے باعث خارج ہونے والے کاربن گیسوں کے مجموعی حجم کے تقریباﹰ نصف کے برابر ہے۔
روشنیوں سے آلودہ آسمان
آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔
اسی طرح کے حالات کی انتہائی نوعیت کی ایک مثال سنگاپور میں بھی دیکھنے میں آتی ہے، جہاں روشنیوں کی وجہ سے راتیں اتنی منور ہوتی ہیں کہ عام شہریوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
ہمیں تاریکی کی ضرورت ہے
رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت اچھی ہے۔ اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہر کرسٹوفر کِیبا کہتے ہیں، ''جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں۔‘‘
کائنات کو ’خدا کی آنکھ‘ سے دیکھنے والا کیپلر کون تھا؟
امریکہ میں 2020ء میں مکمل کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق ایسے بچے یا نوجوان جو بہت زیادہ مصنوعی روشنیوں والے علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں نیند کم آتی ہے اور جذباتی نوعیت کے مسائل کا سامنا بھی زیادہ رہتا ہے۔ کرسٹوفر کِیبا کے مطابق، ''مصنوعی روشنیوں کا متعارف کرایا جانا ان سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلیوں میں سے ایک ہے، جن کی ہم انسان زمین کے کرہ حیاتی میں وجہ بنے ہیں۔‘‘
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مطابق زمین پر انسانی طرز زندگی کے باعث کرہ ارض ہر سال دو فیصد کی شرح سے روشن تر ہوتا جا رہا ہے۔
تاریکی تو جانوروں اور پودوں کو بھی پسند ہے
زمین پر حیاتیاتی اقسام میں سے انسانوں کے علاوہ بھی کئی انواع ایسی ہیں، جنہیں خود کو رات کے وقت مصنوعی روشنی کا عادی بنانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مثلاﹰ کورلز یا مونگے کی چٹانیں اس وجہ سے حسب معمول اپنی افزائش نسل نہیں کر پاتیں۔ ہجرت کرنے والے پرندوں کی اسی وجہ سے سفر کی سمت کا تعین کرنے والی حس متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر اسی بنا پر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے والے نئے بچے ساحلی علاقوں سے پانی کی طرف جانے کے بجائے مزید خشکی کی طرف جانے لگتے ہیں، جہاں وہ مر جاتے ہیں۔
رات کے وقت مصنوعی روشنی حشرات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک سائنسی مطالعے کے مطابق صرف جرمنی میں ہی ہر موسم گرما میں رات کے وقت مصنوعی روشنی کے نتیجے میں ایسے تقریباﹰ 100 بلین چھوٹے چھوٹے حشرات مر جاتے ہیں، جن کا تعلق رات کے وقت فعال رہنے والے حشرات کی قسموں سے ہوتا ہے۔
رنگ بکھیرتی تتلیاں اور ٹمٹماتے جگنو ناپید ہوتے ہوئے
جہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن یا زیرگی بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں۔
رات کے وقت مصنوعی روشنی کے اثرات تناور درخت بھی محسوس کرتے ہیں اور قدرتی شبینہ تاریکی میں رہنے والے درختوں کے مقابلے میں ان پر کلیاں جلد آنے لگتی ہیں جبکہ پتے معمول سے کافی زیادہ تاخیر سے جھڑتے ہیں۔
م م / ع ا (ٹم شاؤئن برگ)