1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

توانائی کا بحران: پاکستان کی نظریں روس اور امریکہ دونوں پر

9 مئی 2023

روسی تیل کی خریدار ی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے لیے توانائی کی مسلسل ترسیل یقینی بنانے کے لیے پاکستانی وزیر پٹرولیم امریکہ کے دورے پر ہیں۔ مصدق ملک کے مطابق، ’’محفوظ مستقبل سبز توانائی میں ہے۔‘‘

https://p.dw.com/p/4R4lK
Pakistan, Peshawar | Straßenverkehr
تصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

سنگین اقتصادی بحران کے شکار ملک پاکستان نے روسی تیلخریدنا شروع کر دیا ہے لیکن ملکی وزیر پٹرولیم کا کہنا ہے کہ محفوظ مستقبل متنوع اور خاص طور پر سبز توانائی میں مضمر ہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم  مصدق ملک کارپوریشنوں کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی بات چیت کے لیے اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں، جس نے روسی تیل کی برآمدات رکوانے کے لیے عالمی کوششوں کی قیادت کی ہے۔ ان کوششوں کا مقصد ماسکو کو تیل سے حاصل ہونے والی خطیر آمدنی سے محروم کرنا ہے، جو اسے یوکرین کے خلاف لڑائی میں مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔

پاکستان کے مفادات روس سے جڑے ہوئے ہیں، عمران خان

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو مالی بحران پر قابو پانے کے لیے امریکہ کے زیر اثر مالیاتی اداروں کی ضرورت ہےتصویر: Kremlin Pool; AP Photo/Alex Brandon

مصدق ملک نے تصدیق کی کہ روسی تیل کے لیے دیا گیا پہلا آرڈر ایک ماہ کے اندر اندر پاکستان پہنچ جائے گا، جس کے بعد اس بات کا اندازہ لگایا جائے گا کہ مستقبل میں روس سے مزید کتنا تیل درآمد کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نتائج کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اپنی ضرورت کے کس حصے کے لیے روسی توانائی استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستان مزید روسی درآمدات بھی کرے گا، انہوں نے کہا کہ اگر ''آج ہمیں توانائی کے سستے ذرائع میسر آتے ہیں، تو ہم انہیں حاصل کریں گے۔‘‘

روسی تیل خریدنا ایک مجبوری

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو توانائی کی مسلسل قلت کا سامنا ہے اور وہ اپنی  ضرورت کی پٹرولیم مصنوعات  کا 84 فیصد خلیجی عرب ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کرتا ہے۔ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان روس کےساتھ تعلقات کے حوالے سے مکمل طور پر شفاف رہا ہے اور ماسکو کے ساتھ اس کے ابتدائی معاملات دوسرے ممالک خاص طور پر چین اور پاکستان کے حریف پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں کافی کم تھے۔ خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے بڑھ چڑھ کر روسی تیل کی خریداری نے واشنگٹن اور نئی دہلی کے مابین تعلقات میں گرم جوشی پر اثر ڈالا ہے۔

کوہاٹ میں آئل ریفائنری کا قیام، روس کے ساتھ معاہدہ طے

مصدق ملک کا کہنا تھا، ''ہمیں کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، نہ تو امریکہ کے ساتھ اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے ساتھ، بہت سے ممالک قانونی طور پر روس سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق ایک سال قبل روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے یورپی پابندیوں کے باوجود مارچ کے مہینے میں روسی تیل کی برآمدات اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں کیونکہ چین اور ترقی پذیر ممالک رعایتی نرخوں پر روسی تیل خرید رہے ہیں۔

پاکستان: عوام کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا دو بھر

صنعتی طور پر ترقی یافتہ سات جمہوری ممالک کے گروپ جی سیون کی طرف سے روسی تیل کی دیگر ممالک میں درآمدات کی قیمت کی حد ساٹھ ڈالر فی بیرل کے نفاذ کی کوششوں کے ساتھ  روس کو تیل سے ہونے والی آمدنی اب بھی نمایاں طور پر کم ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے، ''حکومتوں کو سستے ایندھن کے حصول کے لیے دباؤ کا سامنا ہےجبکہ روس نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ توانائی کا قابل بھروسہ فراہم کنندہ نہیں۔‘‘

امریکی ناراضگی مول لینا مشکل

ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کے خیال میں واشنگٹن میں ایک وسیع اتفاق رائے ہے کہ یہ ''ایک موقع پرستانہ صورتحال ہے، جہاں پاکستان سستے تیل کے لیے بے چین ہے‘‘ اور یہ روس کے ساتھ بھارت کے تاریخی تعلقات سے کافی مختلف معاملہ ہے۔

کوگل مین نے کہا، ''میرا خیال ہے کہ اسلام آباد اس قدر مشکل حالت میں ہے کہ وہ امریکہ کی مخالفت کا خطرہ مول نہیں لے گا، اس لیے کہ اس وقت پاکستان کے لیے اہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر واشنگٹن کا اثر و رسوخ ہے۔‘‘ واضح رہے کہ پاکستان اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کو بچانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ کی نئی قسط کا مطالبہ کر رہا ہے، جس نے حکومتی مالی اعانتوں میں کٹوتیوں سمیت دیرپا اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے  وزیر اعظم شہباز شریف نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا غیر مقبول قدم بھی اٹھایا۔

پاکستان میں شمسی توانائی کی ضرورت اور چیلنجز

'مستقبل صرف سبز توانائی میں‘

مصدق ملک کے مطابق انہوں نے امریکی کمپنیوں سے مائع قدرتی گیس خریدنے، پاکستانی ریفائنریوں اور تیل  ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے، آف شور تیل اور گیس کی تلاش اور افقی ڈرلنگ شروع کرنے کے بارے میں بات کی، ایسا طریقہ جو پاکستان میں  ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔

 لیکن ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ ان کی بات چیت میں پاکستان کے 2030 تک قابل تجدید ذرائع سے 30 فیصد بجلی پیدا کرنے کے ہدف کے مطابق گرین انرجی کے لیے بھی تعاون حاصل کیا جائے گا، جس میں چھتوں پر وسیع پیمانے پر شمسی توانائی کے پینلوں کی تنصیب کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا، '' ہمارے لیے یہ  بالکل واضح ہے کہ توانائی کی ترسیل کی ضمانت کا مستقبل سبز توانائی میں ہے۔‘‘

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ گزشتہ برس سیلابوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا۔ ورلڈ بینک کی 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان شمسی توانائی کے لیے اپنے رقبے کا صرف 0.071 فیصد ہی استعمال کر کے بجلی کی اپنی جملہ طلب پوری کر سکتا ہے۔

ش ر ⁄  م م (اے ایف پی)