توانائی کی بڑھتی ضروریات سے پانی کی قلت شدید تر
26 اگست 2011انٹرنیٹ پر گوگل سرچ انجن کے ذریعے ’ورلڈ واٹر شارٹیج‘ یا ’پانی کی عالمگیر قلت‘ کے الفاظ تلاش کیے جائیں تو صرف 0.17 سیکنڈز میں سکرین پر چار ملین سے زیادہ نتائج نمودار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تلاش کے اس عمل کے دوران چائے کے ایک چمچ کے دَسویں حصے کے برابر پانی بھی استعمال ہوتا ہے۔
بجلی کی پیداوار میں پانی کے کردار کے حوالے سے حساب لگایا جائے تو گوگل سرچ انجن میں تلاش کے 300 عوامل کا مطلب ہو گا، روزانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لیٹر (40 ہزار گیلن) پانی کا استعمال۔ پانی کی قلت کے مسئلے سے دوچار دُنیا کے لیے یہ بڑا تشویشناک پہلو ہے۔
امریکہ میں پانی اور توانائی کے امور کے ایک ماہر Len Rodman کے خیال میں ’یہ دو چیزیں، پانی اور توانائی، ایک دورسے سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ ایک بڑا نکتہ ہے، جسے دُنیا کو سمجھنا چاہیے‘۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں پانی اور توانائی کے شعبے میں سرگرم عمل ایک بڑے ادارے Black & Veatch کے چیف ایگزیکٹو نے بتایا:’’اگر آپ پانی کا بے جا اَصراف کرتے ہیں اور توانائی کا بھی بے تحاشا استعمال کرتے ہیں تو طویل المدتی بنیادوں پر اِس کے دُنیا پر ضرور اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
پانی ڈیمز اور بھاپ کی وساطت سے صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے ہی استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اُن پاور پلانٹس یا بجلی گھروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے، جو ایٹمی توانائی، کوئلے یا پھر گیس سے چلتے ہیں۔ پانی کے استعمال کے سلسلے میں ان پاور پلانٹس کی مقابلہ بازی، زراعت کے شعبے، صنعتوں اور شہروں میں پانی کے استعمال سے ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی پیشین گوئی ہے کہ براعظم ایشیا میں توانائی کی ضروریات سن 2030ء تک اب تک کے مقابلے میں بڑھ کر دگنی یعنی 6325 ملین تیل کے برابر یا 74 ارب کلو واٹ گھنٹے ہو جائیں گی۔
اِس بینک کا کہنا ہے کہ ایشیا میں بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں پانی کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا چلا جائے گا لیکن یہ کہ دوسری جانب پانی کی فراہمی کی صورتِ حال ابھی سے خطرے میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دُنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں چین اور بھارت کو اگلے بیس برسوں کے اندر اندر مشترکہ طور پر پانی کی ایک ٹرلین کیوبک میٹر کے برابر قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف توقیر