توشہ خانہ اسکینڈل کے حقائق کیا بتا رہے ہیں؟
13 مارچ 2023وفاقی حکومت کی طرف سے سرکاری ویب سائٹ پر جاری کی جانے والی چار سو چھیالیس صفحات پر مبنی فہرست کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کو 181‘ پاکستان مسلم لیگ کے قائد اور سابق وزیر اعظم نوازشریف کو 55‘ شاہد خاقان عباسی کو27‘عمران خان کو 112اورپرویز مشرف کو 126تحائف ملے۔
توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
ٹرانسپیرنسی کا نیا کرپشن انڈکس: حکومت کے خلاف تنقید کا طوفان
یاد رہے، توشہ خانہ ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران مہمان شخصیات کو ملنے والے تحائف کا وزارتِ خارجہ کے اہلکاراندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انہیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انہیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سن 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔
کئی سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست پاکستان کو ملنے والے بیش قیمت تحائف کو اشرافیہ کے مفاد میں بنائے گئے قوانین کے ذریعے کوڑیوں کے مول ہتھیا لیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں توشہ خانہ کے قوانین کے مطابق کم قیمت اشیا کو بغیر کسی قیمت کی ادائیگی کے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
توشہ خانہ کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی تفصیلات کےمطابق بہت سی امیر اور با اثر حکومتی شخصیات پچھلے دو عشروں کے دوران بغیر کوئی پیسہ ادا کئے کم قیمت اشیا حاصل کرتی رہی ہیں۔ توشہ خانے سے مفت کے تحائف جاری کروانے والوں میں آصف علی زرداری، عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، عارف علوی، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی اور جنرل پرویز مشرف بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی، حنا ربانی کھر، بلاول بھٹو زرداری، سرتاج عزیز، عرفان صدیقی، ثمینہ جنجوعہ، نذر محمد گوندل، سلمان فاروقی، انعام الحق اور میاں محمد سومرو بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ مفت تحائف پانے والوں میں صدر عارف علوی، پرویز مشرف اور نواز شریف کی بیگمات کا نام بھی درج ہے۔
حیرت انگیز طور پر قانون کے مطابق فری تحائف وصول کرنے والوں میں سابق وفاقی محتسب، ایڈیٹر جنرل پاکستان،سابق ججز، کئی فیڈرل سیکریٹری اور ان ادوار کے وفاقی وزرا بھی شامل ہیں۔ توشہ خانے کی بہتی گنگا سے فیض یاب ہونے والوں میں پاکستان کے صدر، چیف ایگزیکیٹو اور وزرائے اعظم کے سٹاف کے لوگ بھی شامل ہیں۔ سیکورٹی افیسرز، سینئر اور جونئیر کلرک، گن مین، ملٹری سیکرٹری اور پروٹوکول کے ارکان تک اس فہرست کا حصہ ہیں۔
فہرست کے مطابق پی ٹی وی اور اے پی پی کے لیے کام کرنے والے صحافیوں نے بھی توشہ خانے سے مفت تحائف حاصل کئے۔
تفصیلات کے مطابق ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، کاریں، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کتابیں، سٹیشنری آئٹمز،کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ توشہ خانے کی سرکاری لسٹ کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ با اثر سیاست دان قیمتی گاڑیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے سب سے مرغوب تحفہ گھڑیوں کا ہی رہا ہے۔ کئی کروڑ پتی اہل علم نے کتابوں، آرٹ کے نمونوں، اور ڈیکوریشن کی اشیا کو بھی بغیر کسی معاوضے کے قبول کیا ہے۔ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے توشہ خانے سے ریوالور خریدنا پسند کیا تھا۔
تجزیہ کار خالد محمود رسول کے مطابق توشہ خانہ کے قوانین اشرافیہ کے وفاداروں نے اشرافیہ کو فائدہ پنچانے کے لیے بنائے ہیں۔ ریاست کو ملنے والے قیمتی تحائف کو یوں کم قیمتوں پر صرف اشرافیہ کی ملکیت بنا دینا بہت نا انصافی کی بات ہے۔
ممتاز دانشور اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما قیوم نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ توشہ خانے کی منظر عام پر آنے والی فہرست نے پاکستانی قوم کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں تمام بڑی جماعتوں اور اداروں کے لوگ موجود ہیں اور کسی نے بھی یہ فائدہ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے اس نا انصافی کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔ ان کے بقول لیڈروں کی کرپشن سے بے زار پاکستانی قوم کا توشہ خانے کی اس فہرست سے ملکی نظام پر سے اعتماد متزلزل ہوا ہے اور اس تاثر کو تقویت مل ہے کہ یہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام درست کام نہیں کر رہا ہے۔ ان کے مطابق ان اشیا کی کھلی نیلامی کرکے حاصل ہونے والی رقم کو بہبود کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔
انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ صحافی احمد فراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کو توشہ خانے کی یہ فہرست دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ بقول ان کے اشرافیہ کے لیے سارا پاکستان ہی توشہ خانہ ہے اور وہ پچھلے پچھتر سالوں سے ملک اور ملکی وسائل کو بھی توشہ خانے کی طرح ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اشرافیہ کے لیے ہی اشرافیہ قانون سازی کرتی ہے پاکستان عوام ان کی بڑی ترجیح نہیں ہیں۔
احمد فراز کو یقین ہے کہ یہ صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ ایک تو عوام میں ابھی اس صورتحال کی تبدیلی کے لیے اتفاق رائے نہیں ہے، دوسرا اشرافیہ پر ہاتھ اس لیے بھی نہیں ڈالا جا سکتا کہ پارٹی اختلافات کے باوجود یہ سب اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔