توہین مذہب کا قانون اور پاکستانی ذرائع ابلاغ پر چھایا خوف
18 مارچ 2017پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ انتہاپسندانہ عقیدے کے حامل افراد توہین مذہب کے قانون کو استعمال کرنے میں بے باک ہیں کیونکہ وہ اس کے ذریعے اعتدال پسند اور لبرل حلقوں میں سرگرم افراد کو ’نکیل‘ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ صورت حال ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب پاکستانی حکومتی حلقے زور و شور سے تشدد، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف آواز بلند کر کے مذہبی دہشت گردوں کی سرکوبی کے دعوے کر رہے ہیں۔
توہین مذہب کے قانون کی پاسداری میں انتہا پسند حلقے اتنے حساس ہو چکے ہیں کہ اس میں معمولی سے تبدیلی پر وہ آگ بگولا ہو جاتے ہیں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لبرل حلقوں کے جن افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں ملک سے فرار ہونے میں عافیت ملتی ہے جیسے کہ احمد وقاص گورایا اور اُن جیسے دوسرے اعتدال پسند افراد نے کیا ہے۔
حال ہی میں پاکستانی حکومت نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹویٹر پر دستیاب بعض مواد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان اداروں سے رابطہ کر لیا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد کی نشاندہی میں تعاون کریں جو پاکستان کے اندر سے مذہبی اشتعال انگیز مواد اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں مقیم ایسے پاکستانیوں کی بے دخلی کی سفارتی کوششیں بھی شروع کر سکتی ہے۔
احمد وقاص گورایا نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ اب پاکستان میں اُن کے خلاف ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ گئے تو مذہبی انتہا پسند اُن کی جان لے سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ بلاگرز کے مقدمے میں وکیل استغاثہ طارق اسد نے کھل کر عدالت سے اِن کے لیے موت کی سزا کی استدعا کی تھی۔ اسد کالعدم سنی انتہا پسند گروپوں کے حامی رہے ہیں اور شیعہ مسلک کو غیرمسلم قرار دینے والوں کے ساتھی بھی خیال کیے جاتے ہیں۔
احمد وقاص گورایا نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ توہین مذہب کے قانون نے میڈیا ہاؤسز کو زیرِنگیں کر رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد یقینی طور پر خوف زدہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اعتدال پسند بلاگرز کے خلاف ایک اپیل سلمان شاہد نامی وکیل نے دائر کر رکھی ہے اور اس وکیل کے پاکستانی دارالحکومت میں واقع انتہا پسندوں کے گڑھ لال مسجد کے ساتھ روابط ہیں۔ ممتاز تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق اس قانون کا سہارا لے کر مذہبی انتہا پسند اپنی نظریاتی جنگ کے فروغ میں مصروف ہیں۔