توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی جائے، پاکستانی عدالت
12 اگست 2017اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج جمعہ بارہ اگست کے روز دیے گئے ایک فیصلے میں کہا کہ بعض افراد صرف اپنی ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے اپنے مخالفین پر توہین مذہب کا غلط الزام عائد کر کے اپنے مخالف اور اس کے خاندان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ توہین مذہب کے قانون کے بعض ناقدین اس قانون ہی کو سرے سے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم عدالت سمجھتی ہے کہ قانون کو ختم کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے ناجائز استعمال کی روک تھام کی جائے۔
اسلام ہائی کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں ملکی پارلیمان سے سفارش کی ہے کہ قانون میں ترمیم کرتے ہوئے کسی شخص پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کرنے والے کے لیے بھی وہی سزا رکھی جائے جو دراصل توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے رکھی گئی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت سے متعلق ان قوانین کے تحت سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔ کئی واقعات میں اِن الزامات کا سامنے کرنے والے متعدد افراد کو مشتعل مظاہرین ہلاک بھی کر چکے ہیں۔