1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب کے قانونی میں اصلاحات کا مطالبہ، پاکستان میں ردعمل

23 اگست 2012

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ توہین مذہب کے قانون میں اصلاح کے ساتھ اس مسیحی بچی رمشاء کی حفاظت کو یقینی بنائے جسے توہین مذہب کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15vVN
تصویر: AP

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے یہ بیان ان بین الاقوامی اپیلوں کا حصہ ہے، جو گزشتہ ہفتے رمشاء کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہوا تھا۔ پولیس نے اسلام آباد کے ایک مضافاتی گاﺅں میرا جعفر کے رہائشیوں کی اطلاع پر تقریباً تیرہ سالہ مسیحی لڑکی رمشاء کو قرآن پاک کے مقدس اوراق کی توہین کے الزام گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا تھا۔ اس بچی کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی معذور ہے۔ اس واقعہ کے خلاف اہل علاقہ نے ایک پرتشدد مظاہرہ بھی کیا تھا تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر خبر آنے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی تھی۔

پولیس نے مظاہرہ کرنے والے 150 افرادکے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے تاہم ابھی تک اس ضمن میں کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر اس سلسلے میں کسی کو گرفتار کیا گیا تو حالات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔

Pakistan Mumtaz Qadri Mord Gouverneur Salman Taseer
گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والا پنجاب پولیس کا سابق اہلکار ممتاز قادریتصویر: AP

اسی دوران پاکستان میں قائم ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی رمشاء اور اس کے اہلخانہ کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ” کئی لوگ ایسے الزامات سے بری ہونے کے بعد مارے جا چکے ہیں۔ جیل میں بھی توہین رسالت کا ملزم قتل کیا جا چکا ہے۔ اس صورتحال میں ملک میں جہاں انتہاپسندی اتنی بڑھ چکی ہے اس بچی کی حفاظت کی ضمانت دینا مشکل ہے۔ اس کے اہلخانہ اور مسیحی برادری بھی خطرے میں ہے۔“

رمشاء کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق سے متعلق وزیراعظم پاکستان کے مشیر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے 31اگست کو رمشاء کو جج کے سامنے پیش کیا جائے گا اور امید ہے کہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ مصطفی نواز نے کہا ، ” ہمیں پولیس کی تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار ہے۔ پولیس کی تحقیقات میں جیسے ہی یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ لڑکی بالغ نہیں ہے تو پھر کافی زیادہ آسانی پیدا ہو جائےگی اور امید ہے کہ اس ماہ کے آخر میں یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں وہ جیل سے باہر ہوگی۔“

پاکستان میں توہین مذہب کا معاملہ ہمیشہ بہت حساس رہا ہے۔ اس سے قبل صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے علاوہ اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو توہین مذہب کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے جبکہ آسیہ بی بی نامی وہ مسیحی خاتون ابھی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، جس کے حق میں بیانات دینے پر گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کےکمیشن کی سربراہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا اور اس کے لیے حکومت کو قائدانہ کردار ادا کرنا پڑے گا۔ زہرہ یوسف نے کہا، ” جب تک حکومت ایک واضح اور جراتمندانہ مؤقف نہیں اپناتی کہ اس قانون میں ترمیم لانی چاہیے اور اس کا جو غلط استعمال ہو رہا ہے اس کو روکنا چاہیے اس وقت تک ان واقعات کا سدباب نہیں کیا جا سکتا۔“

گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والا پنجاب پولیس کا اہلکار ممتاز قادری جیل میں ہے اس کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت موت کی سزا سنا چکی ہے تاہم اس نے اپنی موت کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ اس مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف ممتاز قادری کی پیروی کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے یہ مقدمہ زیر التواء ہے اور اس کی ایک وجہ ممتاز قادری کے حامیوں کی طرف سے ممکنہ شدید ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ