1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہینِ مذہب پر انڈونیشی گورنر کے خلاف عدالتی کارروائی شروع

عابد حسین
13 دسمبر 2016

انڈونیشیا میں آج منگل تیرہ دسمبر سے جکارتہ کے گورنر کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ گورنر کا تعلق چینی نژاد مسیحی اقلیت سے ہے۔

https://p.dw.com/p/2UBsX
Indonesien Blasphemie Prozess Basuki Tjahaja Purnama Protest
عدالت کے باہر ایک بینر پر جکارتہ کے گورنر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھایا گیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Alangkara

انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کی ایک عدالت میں گورنر بیسوکی تجہاجا پورنما عرف آہوک نے مسلمان انتہا پسندوں کی جانب سے عائد توہین مذہب کے الزامات سے کلی طور پر انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کے وقت، وہ اتنے جذباتی ہوئے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور آواز رُندھ گئی۔

 رواں برس ستمبر میں جکارتہ کے گورنر نے کہا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران اُن کے مخالفین نے قران کی ایک آیت کا غلط استعمال کر کے ووٹرز کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔ انتہا پسند مسلمان علماء نے مسیحی گورنر کا یہ بیان توہین مذہب کے زمرے میں ڈال کر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اگر اُن کے مخالف وکلاء اِس الزام کو درست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں قید سزا کا حکم سنایا جا سکتا ہے۔

عدالت میں استغاثہ کی جانب سے توہین مذہب کے مبینہ الزام کی پیش کردہ تفصیلات کے جواب میں چینی نژاد مسیحی سیاستدان پورنما نے کہا:’’میں اس الزام کو سمجھ رہا ہوں لیکن ایسا کیا غلط میں نے کہا ہے جو توہین مذہب ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ انہوں نے تھاؤزند آئلینڈز میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا وہ واضح طور پر قران کی کسی آیت کی تشریح نہیں تھی اور اِس سے علماء یا قران کی توہین بھی مقصود نہیں تھی۔

Indonesien Blasphemie Prozess Basuki Tjahaja Purnama
جکارتہ کے گورنر پورنما عرف آہوک عدالت میں داخل ہوتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/T. Syuflana

پورنما گزشتہ پچاس برسوں میں منتخب ہونے والے جکارتہ کے پہلے غیر مسلم گورنر ہیں اور وہ دوسری مدت کے لیے گورنری کے انتخاب میں شریک ہیں۔

اسی دوران سابق صدر سوسیلو بامبانگ یدھویونو کے بیٹے نے پولیس سےآہوک کے بیان کے حوالے سے اپنا تفتیشی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سابق صدر کے صاحبزادے بھی جکارتہ کی گورنری کے الیکشن کے ایک امیدوار ہیں۔ گورنرشپ کا الیکشن اگلے برس پندرہ فروری کو ہو گا۔

انڈونیشی قانون کے مطابق توہین مذہب کا ارتکاب کرنےکا جرم ثابت ہونے پر کم از کم پانچ برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ دریں اثنا موجودہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جکارتہ حکومت نے کئی ایسی ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی ہے جو مذہبی بےچینی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی انتشار پھیلانے کی مرتکب ہو رہی تھیں۔