تِکرِیت پر قبضے کی جنگ جاری
29 جون 2014عراق کی حکومت نے شمالی شہر تِکرِیت پر قبضے کا جو بڑا آپریشن کل ہفتے کو شروع کیا تھا، اُس مناسبت سے ہفتے کی رات گئے تک کوئی بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی تھی۔ شہر کے لوگوں کے مطابق شہر کے مرکزی حصے پر سنی عسکریت پسند قابض ہیں جبکہ حکومتی فوج کا دعویٰ ہے کہ تِکرِیت شہر کے باہر سے شروع کیے گئے اس آپریشن میں فوج انتہائی محتاط انداز میں بڑھتے ہوئے نواحی علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ عراقی فوجی حکام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ حکومتی فوج کا ایک دستہ ہفتے کی رات میں نواحی علاقوں سے بڑھتی ہوئی شہر کے قلب تک پہنچ چکی ہے۔
عراقی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل قاسم المُوسوی کا کہنا ہے کہ تِکرِیت پر قبضے کا آپریشن ہفتے کی صبح زمینی فوج نے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے شروع کیا۔ اِس آپریشن سے ایک روز قبل، جمعے کے دن عراقی فوج کے دستوں کو تِکرِیت یونیورسٹی کے وسیع کیمپس میں بھی اتارا گیا تھا۔ جنرل قاسم المُوسوی کے مطابق اِس عمل سے شہر کے اندر مورچے قائم کر کے ایک ساتھ کارروائی شروع کی گئی۔ تِکرِیت یونیورسٹی کیمپس میں ہفتے کے دن وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ تِکرِیت کے شمال میں واقع شہر سمارا سے بھی فوجی دستے دریائے دجلہ کو عبور کر آگے بڑھے ہیں۔
عراقی فوج کے صلاح الدین آپریشن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد ابُو رغیف کے مطابق ہفتے کی شام میں فوج کا ایک دستہ تِکرِیت شہر میں داخلے کے مقام پر تھا اور ایک دوسرے دستے نے ایک فضائی بیس پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ عراقی صوبے صلاح الدین کے گورنر احمد عبداللہ جبوری نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ فوج کا ایک اور دستہ تِکرِیت شہر کے اندر صوبائی کونسل کی عمارت تک پہنچ گیا ہے۔ شہر کے اندر سے عام شہریوں نے اس کی تصدیق کی ہے کہ یونیورسٹی کے علاقے میں فوج اور سنی عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ جو بھی صورت حال ہے وہ بہتر حالات کی عکاس ہے کیونکہ اس آپریشن میں حکومتی فوج کے اُس حوصلے کا احساس ہوتا ہے، جو اُس نے عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے شروع کیا ہے اور یہ کم از کم اُس شکست سے بہتر ہے، جو دو ہفتے پہلے سنی عسکریت پسندوں نے اُسے دی تھی۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران عراق کے شمال اور مغرب میں سنی انتہا پسندوں کے عروج نے عراق کے اندر سنگین بحران پیدا کر رکھا ہے جو ملک کو تقسیم کے قریب لے گیا ہے۔
سنی انتہا پسند تنظیم اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے جنگجوؤں کے سامنے امریکا کی تربیت یافتہ عراقی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں تِکرِیت پر دوبارہ بغداد حکومت کی عملداری قائم کرنے سے عراقی فوج کے کھوئے ہوئے وقار میں معمولی سی بہتری ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نوری المالکی کو بھی سکون و راحت ملے گی۔ اِن دنوں مالکی اپنے وزارت عظمیٰ بھی بچانے کی کوشش میں ہے۔ عراق کے سب سے بااثر اور معتبر شیعہ رہنما آیت اُللہ العُظمیٰ علی السیستانی نے منگل تک وزیراعظم، صدر اور اسپیکر کا انتخاب مکمل کرنے کی اراکین پارلیمنٹ کو تلقین کی ہے۔