تھائی فوجی حکومت کے خلاف جمہوری مہم
24 جون 2014مہم چلانے والوں کے مطابق اس کا مقصد جمہوریت کی بحالی اور ’’فوجی ڈکٹیٹر شپ اور اس کے اشرافیہ نیٹ ورک کی مخالفت کرنا اور لوگوں کی مکمل حاکمیت قائم کرنا‘‘ ہے۔
پھوئہا تھائی Puea Thai نامی سیاسی جماعت کے چیئرمین جارو پونگ روانگسوان Jarupong Ruangsuwan کی طرف سے جاری کردہ عوام کے نام ایک کھُلے خط میں کہا گیا ہے کہ تھائی ملٹری کونسل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ فوج نے گزشتہ ماہ جب اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت اسی سیاسی جماعت کی حکومت تھی۔ روانگسوان نے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ فوج اقتدار جلد منتخب حکومت کے حوالے کر دے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ فوج کا مقصد ’’ایک نیا کٹھ پتلی نظام تیار کرنا ہے جس کا ہدف محض تھائی لینڈ کی سیاست میں جمہوریت مخالف عناصر کو داخل کرنا اور ملکی جمہوریت میں ہونے والی ترقی کو سبوتاژ کرنا ہوگا‘‘۔ پھوئہا تھائی پارٹی کے چیئرمین کا مزید کہنا ہے، ’’زیادہ جمہوری اور مہذب معاشرے کی تعمیر سے قبل اس طرح کے کسی بھی ڈھانچے کو ہٹایا جانا ضروری ہو گا۔‘‘
تھائی لینڈ میں سابق وزیراعظم یِنگ لَک شناواترا کی حکومت کے خلاف کئی ماہ سے جاری مظاہروں اور احتجاج اور پھر ملکی آئینی عدالت کی طرف سے شناواترا کو وزارت عظمٰی کے عہدے سے معزول کیے جانے کے بعد ملکی فوج نے مئی میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ عدالت کی طرف سے سات مئی کو سنائے جانے والے فیصلے میں شناواترا پر طاقت کے غلط استعمال کے الزام میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے الگ کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد عنان حکومت ملکی کابینہ چلا رہی تھی جسے فوج نے 22 مئی کو اقتدار سے الگ کر کے نظام حکومت سنبھال لیا تھا۔
زیادہ تر مغربی ممالک نے فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کر رکھا ہے کہ ملک میں سویلین حکومت کو بحال کیا جائے۔ یورپی یونین اور امریکا نے تھائی لینڈ کے ساتھ تعاون پر مشتمل پراجیکٹس روکتے ہوئے سفارتی دورے بھی معطل کر دیے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جاروپونگ کی یہ تحریک فوجی حکمرانوں کی مخالفت کیسے کرے گی اور یہ کہ وہ کہاں موجود ہیں۔ تاہم شناواترا کے بھائی اور سابق وزیراعظم تھاکسن شناواترا کے ایک ترجمان جاکراپوب پینکیر Jakrapob Penkair نے پانچ جون کو تھائی لینڈ کے ہمسایہ ملک کمبوڈیا میں روئٹرز کو بتایا تھا کہ ایک تحریک کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے باہر سے شروع کی جانے والی اس مہم کا مقصد ملک میں عوامی نافرمانی کی تحریک شروع کرنا ہو گا۔
کمبوڈیا کے وزیراعظم ہُن سین Hun Sen کو تھاکسن شناواترا کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے، تاہم ان کی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ تھائی مزاحمتی تحریک اپنے ملک سے شروع کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔