تھائی لینڈ میں خونریز بحران کا فاتح کون؟
20 مئی 2010پر تشدد مظاہرین کے رہنما باقاعدہ طور پر اپنا احتجاج ختم کر چکے ہیں، لیکن ابھی بھی املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے اور سیکیورٹی دستے فائرنگ کرنے پر مجبور ہیں۔ بنکاک میں آئندہ دنوں میں حالات بظاہر دوبارہ معمول پر آ بھی گئے، تو بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ اس ملک میں تنازعہ مکمل طور پر حل کر لیا گیا ہے۔
مسکراہٹوں کی سرزمین! تھائی لینڈ ہر سال بیرون ملک سے چھٹیاں منانے کے لئے وہاں جانے والے لاکھوں سیاحوں کو اپنا تعارف اسی طرح کرواتا ہے۔ جب آگ بجھ جائے گی، بنکاک کی سڑکوں سے دھواں چھٹ جائے گا اور شاہراہوں پر کھڑی رکاوٹیں دور کرنے کے بعد اس طویل تنازعے میں ہلاک ہونے والوں کی گنتی بھی مکمل ہو جائے گی، تو پھر یہ سوال پوچھا جائے گا کہ جیتا کون اور ہارا کون؟
اگر اس سوال کا جواب فوری طور پر دیا جائے تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ جیتنے والا ایک بھی نہیں، ہارنے والے سارے ہی! اس لئے کہ اس احتجاج کے دوران، جو شروع میں پرامن تھا، پھر پر تشدد ہوا اور آخر میں خونریز بھی، سب سے بڑا نقصان تھائی لینڈ میں جمہوریت کو پہنچا ہے۔ پارلیمان نے ایک بار پھر خود کو نااہل ثابت کر دیا۔ اس لئے کہ وہ ان مظاہروں کی وجہ بننے والے شہری علاقوں کے امیر اور بااثر طبقے اور مظاہرے کرنے والے، دیہی علاقوں کے غریب عوام کے مابین پائے جانے والے سماجی تضادات کو تعمیری سیاست سے ختم کرنے میں ناکام رہی۔
کسی بھی سیاسی جماعت نے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش نہیں کی، یا اس امکان کو بھی مضبوط نہیں بنایا کہ اختلافات سیاسی سطح پر حل کئے جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ملکی سیاسی ادارے ایک بار پھر مکمل طور پر ناکام رہے۔
اس دوران تھائی لینڈ میں شاہی خاندان کی اخلاقی حکمرانی کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ یہ امید بھی پوری نہ ہوئی کہ تھائی لینڈ کے بادشاہ، جو پہلے ہی بہت بیمار ہیں، شاید اس تنازعے کے حل کے لئے کوئی نتیجہ خیز مداخلت کر سکیں گے۔ ان مظاہروں اور بدامنی کے خونریز واقعات سے ملکی سیاحتی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا، جس سے لاکھوں شہریوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔
بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ تھائی لینڈ ان مظاہروں کے آغاز سے قبل دو سیاسی دھڑوں میں بٹا ہوا تھا، جو اب بھی ہے۔ تھائی لینڈ میں سرخ اور زرد امتیازی رنگوں والی دو بڑی سیاسی طاقتوں کے علاوہ ایک تیسری طاقت بھی ہے، جو ملکی فوج ہے۔ ملک کے دفاع کا نگران وہ ادارہ جو تھائی لینڈ کی جدید تاریخ میں آج تک کُل اٹھارہ مرتبہ بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر چکا ہے۔
حالیہ بدامنی کے دوران بھی یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ فوج دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے کہ شواہد کہتے ہیں کہ فوج موجودہ بحران کے حل کے لئے نئے عام الیکشن کروانے کے حق میں تھی، تاہم سیاستدانوں نے ایسا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو حالات آج نظر آنے والی صورت حال کی وجہ بنے، ان کا مثبت پہلو کیا رہا؟ جواب یہ کہ کئی افراد مارے گئے، جو افسوسناک ہے، لیکن کوئی بہت بڑی خونریزی نہیں ہوئی یا معاملہ طویل خانہ جنگی تک نہیں پہنچا۔ حالات موجودہ سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتے تھے۔ اس کے باوجود اس عموی احساس کی تردید ممکن نہیں کہ تھائی لینڈ میں تنازعے کے فریقین فی الحال دوبارہ اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چلے گئے ہیں، اگلی مرتبہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے تک کے لئے!
تحریر: سِبلّے گولٹے شروئڈر / مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفےٰ