تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے 30 برس مکمل
3 نومبر 2009تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں شریک اُس دور کے طلبا کی اکثریت میں سے اکثر اب قدامت پسند حکومت پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تیس برس قبل انقلاب کے بعد نئی اسلامی جمہوریہ کے قیام میں پیش پیش یہ شدت پسند نوجوان اب اپنے اُن اقدامات کو غلط قرار دیتے ہیں اور امریکہ سمیت عالمی برادری سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم اب بھی قدامت پسندی ترک کرکے اعتدال پسندی کی جانب جھکاؤ رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد امریکہ کی کھل کر حمایت کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خامینی نے سفارت خانے پر قبضے کو ’’دوسرا انقلاب‘‘ قرار دیا تھا تاہم سفارت خانے پر حملے میں شریک ماسومہ اعتکار، عباس عابدی اور محسن مردآمدی جیسے افراد اب اصلاحات پسندوں کی تحریک میں محمود احمدی نژاد اور ان کی حکومت کے سب سے بڑے ناقدین سمجھے جاتے ہیں۔
مردآمدی ایرانی مجلس شوریٰ کی خارجہ امور کی پالیسی اور قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔ مردآمدی نے 4 نومبر 1979ء کو امریکی سفارت خانے پر حملے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ مردآمدی اس وقت جیل میں ہیں، ان پرالزام عائد ہے کہ انہوں نے بارہ جون کے صدارتی انتخابات کے بعد عوام کو مشتعل کرنے اور مظاہروں کے پھلاؤ میں اپنا کردار ادا کیا۔
امریکی سفارت خانے میں یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کرانے کے مذاکرات ناکام رہے تو امریکی صدر جمی کارٹر نے 24 اپریل 1980ء کو ایک فوجی مشن کے تحت یرغمالیوں کو رہا کرانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ مشن بری طرح سے ناکام ہو گیا۔ مشن کے دوران دو امریکی ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے جس سے 8 فوجی ہلاک ہو گئے۔
اس ناکامی نے جمی کارٹر کی مقبولیت پر سخت منفی اثر ڈالا اور وہ نومبر 1980ء کے صدارتی انتخاب میں رونالڈ ریگن کے مقابلے میں ہار گئے۔ بالاخر مذاکراتی کوششوں کے نتیجے میں 444 دنوں بعد یرغمالیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عاطف بلوچ