تیز رفتار موجوں سے سندھ میں شدید تباہی کا خطرہ
11 اگست 2010 ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے یوں تو چاروں صوبے متاثر ہوئے مگر خیبر پختونخوا پنجاب میں تباہی کے بعد سیلابی ریلا سندھ میں داخل ہو کر تباہی مچا رہا ہے۔ اس وقت سکھر بیراج کے ساتھ ساتھ سکھر شہربھی خطرے کی لپیٹ میں ہے دادو، کندھ کوٹ اور کشمور کے بے شمار دیہات اور کچے کے علاقے بحیرہ عرب کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔
سکھر اور کوٹری بیراج پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔سیلابی ریلے کی وجہ سے سکھر اور اس کے گردونواح کی آبادیوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
جامشورو کی حدود میں شہر کو بچانے کےلیے دریائے سندھ کے بعض بندوں میں شگاف ڈالنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ادھر کوٹری بیراج پر بھی پانی کی سطح میں اضافہ تشویش ناک صورت اختیار کر گیا ہے ۔
جس کی وجہ سے لاڑکانہ، دادو، جام شورو، بے نظیر آباد، مٹیاری، حیدرآباد اور ٹھٹھہ کے علاقوں میں سیلابی پانی کے داخل ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔سیلاب زدہ علاقوں میں خوارک کے ساتھہ ساتھہ پینے کے صاف پانی کی بھی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔متاثرین کا کہنا ہے کہ امداد کا میڈیا کے ذریعے چرچا کیا جا رہا ہے۔ بیشتر لوگوں نے شکایت کی ہے کہ صرف سیاسی اثر و رسوخ کو مد نظر رکھ کر امداد کی جا رہی ہے۔حقیقی ضرورت مند اب بھی امداد سے محروم ہیں۔
ادھر دریائے سندھ کا سیلابی ریلا دادو کے گاؤں خاکی تک پہنچ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے خیر پور کے گوٹھہ رزی ڈیرہ کے تین دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے تین بچوں میں سے ایک کی لاش نکالی جا چکی ہے۔ محکمہ آب پاشی سندھ کا کہنا ہے کہ گڈو کے مقام پر دس لاکھ ستاسی ہزار جبکہ سکھر سے گیارہ لاکھہ تیس ہزار پانی کا ریلا گزر رہا ہے۔
کچھہ مقامات پر پانی کی سطح حفاظتی بند سے تجاوز کر گئی جس کے باعث سیلابی پانی گھوٹکی، پنو عاقل روہڑی، سکھر اور علی واہن میں داخل ہورہا ہے۔ پاک فوج کےجوان، سکھر اور علی واہن کے مقامات پر پانی کے رساؤ روکنے کے لیے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ روہڑی کی حفاظتی دیوار سے پانی کا اخراج جاری ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں سیلابی صورت حال کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
سندھ میں سکھر کے مقام پر علی واھن بند متنازعہ بن گیا ہے۔ سکھر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کو بچانے کے لئے فوری طور پر علی واہن بند میں شگاف ڈالا جائے اس ضمن میں شہریوں نے سید خورشید شاہ کو مورد الزام ٹہرایا ہے جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بند توڑے جانے کی صورت میں پنو عاقل چھاؤنی بھی سیلاب کی زد میں آسکتی ہے ۔
رپورٹ: رفعت سعید
ادارت: کشور مصطفیٰ