تیزابی سمندر، مچھلیاں خطرے کے احساس سے محروم
7 دسمبر 2009جنرل ایکولوجی لیٹرز نامی سائنسی جریدے میں چھپنے والی اس تازہ تحقیق کے مطابق ایسی کلاؤن مچھلیوں جو غیر تیزابی پانی میں رہتی ہیں، تیزابی پانی میں رہنے والی مچھلیوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ خطرے کو بو سونگھ سکتی ہیں۔ یہ تحقیق جیمز کوک یونیورسٹی کوئن لینڈ آسٹریلیا سے وابستہ ڈینیلی ڈکسن اور ان کی ٹیم نے مکمل کی ہے۔
پانی ایک معتدل مائع ہے، جس کی پی ایچ سات ہوتی ہے۔ pH سات سے زیادہ ہو تو پانی اساسی جبکہ سات سےے کم ہو تو پانی تیزابی کہلاتا ہے۔ پی ایچ کی عمومی تعریف کے مطابق کسی پانی میں ہائیڈروجن اور ہائیڈرو آکسائیڈ آئنوں کے ارتکاز کو پی ایچ کہا جاتا ہے۔
اس تحقیقی ٹیم نے کچھ نارنجی کلاؤن مچھلیوں کی ایسے پانی میں نشوونما کی، جس کی تیزابیت نارمل پانی کے مقابلے میں تھوڑی سی زیادہ تھی جبکہ کچھ مچھلیوں کو عام پانی میں نشوونما دی گئی۔
پھر ان مچھلیوں کو ایک فلو چیمبر میں چھوڑا گیا۔ اس فلو چیمبر میں دو ٹینکوں سے پانی آ رہا تھا۔ ایک تو اس ٹینک سے جس میں کلاؤن مچھلیوں کی ازلی شکاری مچھلیاں رہتی رہیں تھیں اور دوسرا اس ٹینک سے جہاں کلاؤن مچھلیوں کی شکاری مچھلیاں نہیں رہی تھیں۔ ان ٹینکوں سے پانی کو اس تناست سے چھوڑا گیا کہ یہ دنوں آپس میں مل نہ پائیں لیکن مچھلیاں رہنے کے لئے اپنی مرضی کے پانی کا انتخاب کر سکیں۔ اس تجربے میں ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ عام قدرتی پانی میں نشوونما پانے والی مچھلیوں نے اپنی شکاری مچھلیوں کے استعمال شدہ پانی میں رہنے سے اجتناب کرتے ہوئے دوسرے پانی کا انتخاب کیا جبکہ تیزابی پانی میں رہنے والی مچھلیاں ایسے کسی رویے کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔ تحقیقی ٹیم کی قیادت کرنے والی ماہر ڈکسن کے مطابق اگر پانی زیادہ تیزابی ہو تو مچھلیوں میں خطرے کو بھانپ لینے کی حس اور بھی بری طرح سے متاثر ہوگی۔
اس سے پہلے منظر عام پر آنے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مچھلی کی زندگی کا تمام تر انحصار خطرے کو سونگھ لینے کی حس پر ہوتا ہے اور اسی حس کی بنا پر مچھلی اپنے رہنے کے لئے سمندر میں محفوظ جگہ کا انتخاب کرتی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ پانی میں تیزابیت سمندری جانداروں کی اموات کا ایک بڑا سبب ہے۔
رواں برس سامنے آنے والی ایک اور تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، جس کا ایک مالیکیول ایک کاربن اور دو آکسیجن ایٹموں سے مل کر بنتا ہے پانی میں حل پزیر ہے۔ یہ گیس پانی کے مالیکیولز اور موجود نمکیات کے ساتھ مل کر کاربونک ایسڈ بناتی ہے۔ جس سے سمندری حیات شدید خطرے سے دوچار ہے۔
گزشتہ کچھ عشروں میں صنعتی ممالک میں ہائیڈروکاربن فیول کے زبردست استعمال نے زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ چند ماہ قبل سائنسی جریدے جنرل نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں برطانوی سائنسدانوں نے کہا تھا دنیا بھر میں صنعتی انقلاب کے بعد سمندروں میں تیزاب کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس کا شکار کوئی ایک خطہ نہیں بلکہ کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے دنیا بھر کے تمام سمندر اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ برطانوی یونیورسٹی پلے ماؤتھ سے وابستہ تحقیقی ٹیم کے لیڈر جیسن ہال سپنسر (Jason Hall-Spencer) کے مطابق سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تحلیل اس حد تک ہو چکی ہے کہ فوری طور پر کمی کے باوجود سمندروں میں موجود اس تیزابیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہےکہ دنیا بھر میں سمندری حیات میں کمی دیکھی گئی ہے اور اس میں مزید کمی آئی گی۔ یہ ناقابل تلافی اثرات ہیں کیونکہ تیزابیت خود ناقابل تلافی ہے۔ ہم نے اسے شروع ضرور کیا ہے مگر ہم اسے ختم نہیں کر سکتے‘‘
پی ایچ تیزابیت ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ہے۔ پی ایچ سے مراد پانی میں ہائڈروجن آئینوں کی مقدار کی شرح ہے۔
اس اسکیل میں سات کا مطلب نیوٹرل ہے جس سے اوپر مائع کو اساس اور اس سے کم ہونے کی صورت میں تیزاب گردانہ جاتا ہے۔ صاف یا پینے کے پانی کی پی ایچ تقریبا سات ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ہال سپینسر کی زیرقیادت اس تحقیقی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ صنعتی انقلاب سے لے کر اب تک سمندری پانی جو قدرے اساسی ہوتا ہے اور جس کی پی ایچ پہلے آٹھ اعشاریہ ایک ہوتی تھی اب کرہ ارض پر اس کی پی ایچ میں صفر اعشاریہ ایک فیصد کمی آ چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ پانی تیزابیت میں اضافے کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ سمندری حیات کو لاحق خطرات کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ جہاں پانی کی پی ایچ سات اعشاریہ آٹھ یا نو ہو وہاں سمندری حیات میں تیس فیصد کمی آ جاتی ہے اور بعض سمندروں میں سائنسدانوں نے یہ پی ایچ سات اعشاریہ چار بھی ریکارڈ کی ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عاطف بلوچ