برسلز میں نیٹو، پورپی یونین اور جی سیون کے سربراہی اجلاس
24 مارچ 2022برسلز منعقدہ ان غیر معمولی اجلاسوں میں روس کی یوکرین پر فوجی چڑھائی کے سبب پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال کی سنگینی پر مذاکرات کیے گئے۔ اس موقع پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ ژینس اسٹولٹن برگ سمیت کئی رہنماؤں نے اس اتحاد کی طرف سے سنجیدہ انتباہی بیانات میں کہا کہ روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے خلاف نیٹو کو اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانا ہو گا۔ نیٹو ممالک کے رہنماؤں نے 'یورپ میں سکیورٹی کی ایک نئی حقیقت‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یورپی سلامتی اور دفاع پر مکمل توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا۔
نیٹو کے سربراہ کا موقف
روسی یوکرینی جنگ اور اس کے اثرات کے پورے یورپ میں پھیل جانے کے تناظر میں اسٹولٹن برگ نے اس ایمرجنسی سمٹ میں توجہ اسی موضوع پر مرکوز رکھنے پر زور دیا تھا۔ سمٹ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے نیٹو سیکرٹری جنرل نے کہا، ''ہم اپنی سلامتی کی ایک نازک صورت حال کے موقع پر اکٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ ایک بہت بڑی گول میز کے گرد جمع عالمی رہنماؤں سے خطاب میں اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا، ''کریملن کی بلااشتعال جارحیت کی مذمت اور یوکرین کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کی حمایت میں ہم سب متحد ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد روسی جارحیت کا حساب چکانے کے لیے روس پر سخت پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم رکھتا ہے، جب تک کہ روس اپنی بہیمانہ جارحیت کو ختم نہیں کرتا۔‘‘ جرمن سیاستدانوں کے پاس آپشن محدود ہیں، جرمن فوج کے سربراہ
جو بائیڈن کی شرکت
یورپی سفارتی دارالحکومت برسلز نے نیٹو کے ہنگامی اجلاس، جی سیون کی میٹنگ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی۔ ان تینوں سربراہی اجلاسوں اور بعد ازاں نیوز کانفرنس میں امریکی صدر جو بائیڈن کی شرکت کی وجہ سے شہر بھر میں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ شہر میں متعدد پولیس چیک پوائنٹ بنائے گئے تھے اور جگہ جگہ سڑکیں بند تھیں، تاکہ درجنوں عالمی رہنماؤں کو ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک اجلاس سے دوسرے اجلاس تک پہنچانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
جو بائیڈن بدھ کو اس امید کے ساتھ برسلز پہنچے تھے کہ ان کے اتحادی روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کریں گے۔ روس کئی ہفتوں سے ان پابندیوں کی زد میں ہونے کے سبب اپنی معیشت کی تباہ حالی دیکھ رہا ہے۔ مغرب گرچہ روس کا مقابلہ کرنے اور اس پر پابندیاں عائد کرنے کے تناظر میں کافی حد تک متفق ہے تاہم اس نیٹو کے رکن ممالک میں اس امر کا ادراک بھی پایا جاتا ہے کہ ان میں اتحاد اور یکجہتی کو اس وقت عالمی معیشت پر یوکرین کی جنگ کے بوجھ اور اس پر آنے والے اخراجات کی کسوٹی پر ہی پرکھا جائے گا۔ روس پر دباؤ بڑھاتے ہوئے مشرقی یورپ کے کنارے پر نیٹو کی افواج کو مضبوط بنانے کا مطلب ہوگا کہ کم از کم پانچ سے دس سال تک کے لیے نیٹو فورسز کو تعینات کیا جائے، تاکہ روس کی بھرپور حوصلہ شکنی ہو سکے۔ تاہم یہ اقدام نیٹو ممالک کے قومی بجٹوں میں غیر معمولی اضافے کا سبب بھی بنے گا۔یوکرائنی بحران پرروس اور امریکا کا سخت موقف، تباہی کا راستہ؟
ژینس اسٹولٹن برگ کے بقول، ''ہمیں مزید کام کرنا ہو گا۔ اس کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ مشرقی یورپی سرحدوں پر ہنگامی صورتحال پائی جاتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مغربی اتحادی ممالک کے رہنما دفاعی شعبے میں مزید سرمایہ کاری پر اتفاق کر سکیں گے۔‘‘
امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے سلامتی امور جیک سلیوان نے سمٹ کے دوران اپنے بیان میں کہا، ''امریکا یہ سننا چاہتا ہے کہ جس عزم اور اتحاد کا مظاہرہ ہم نے گزشتہ مہینوں کے دوران دیکھا ہے، وہ آئندہ بھی، جب تک درکار ہو، نظر آتا رہے گا۔‘‘
یورپ میں توانائی کا بڑھتا بحران
توانائی کا بحران
روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والا توانائی کا بحران ابھی مزید بڑھے گا۔ اس پر یورپی کونسل کے اجلاس میں گرما گرم بحث کا امکان ہے۔ اسپین، پرتگال، اٹلی اور یونان کے رہنما اس ضمن میں یورپی بلاک کی طرف سے فوری اور مربوط جواب کی امید کر رہے ہیں۔ یورپی حکام نے کہا ہے کہ وہ امریکا سے مدد طلب کریں گے، اگلے موسم سرما تک قدرتی گیس ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو بڑھانے کے منصوبوں کے سلسلے میں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ یورپی بلاک مشترکہ طور پر گیس خریدے۔
ادھر جرمن چانسلر اولاف شولس نے روس سے انرجی سپلائی کا بائیکاٹ کرنے کی کال کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یوں جرمنی کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ جرمن چانسلر کو اپنے ملک کے ماحول پسند حلقوں کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا ہے، جو برلن حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ روسی توانائی پر جرمن انحصار کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ چانسلر شولس کا تاہم کہنا ہے کہ یہ راتوں رات تو ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس میں وقت لگے گا۔ اولاف شولس نے کہا، ''ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی اس کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جرمنی اور پورا یورپ مزید کساد بازاری میں ڈوب جائیں گے۔‘‘
سستا تیل بھی کتنی بڑی مجبوری، بیلاروس روس میں مل بھی سکتا ہے
دریں اثناء پولینڈ اور مشرقی یورپ کے نیٹو میں شامل ممالک بھی روس کے بارے میں بڑھتے ہوئےخدشات سے نمٹنے اور یوکرین میں روسی جارحیت کے سبب مہاجرین کے بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پانے اور ان کی مشکلات سے نمٹنے میں امریکا اور اس کی اتحادی یورپی اقوام کے رویے اور اقدام کے بارے میں واضح لائحہ عمل کے منتظر ہیں۔
یوکرین سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ساڑھے تین ملین شہری دیگر یورپی ممالک پہنچ چکے ہیں، جن میں سے دو ملین سے زائد تو صرف پولینڈ میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن جمعہ 25 مارچ کو پولینڈ جائیں گے، جہاں وہ پولش صدر آندریج ڈوڈا سے ملیں گے۔ اس ملاقات میں بھی یوکرین کے تنازعے ہی کو مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔
ک م / م م (اے پی)