تیونس: اسلام پسند حکومت کے خلاف مظاہرے
25 اگست 2013تیونس میں جاری بحران تیز تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جولائی کے مہینے میں بائیں بازو کے سیاست دان کی ہلاکت اور اس سے قبل اسی نوعیت کے ایک اور واقعے نے تیونس کو مزید سیاسی انتشار کا شکار کر دیا اور حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبے شدت اختیار کر گئے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانے اور معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے میں ناکام رہی ہے لہٰذا اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
نیشنل سالویشن فرنٹ نامی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا مطالبہ ہے کہ حکومت مستعفی ہو جائے اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نئی حکومت اس کی جگہ لے کر نئے انتخابات کا انعقاد کرے۔
اپوزیشن کی جانب سے ایک ہفتے تک مظاہرے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہفتے کی شب ہونے والے مظاہروں کے دوران حکومت کے مخالفین نے نعرے لگاتے ہوئے کہا، ’’ہم نے تمہیں آزما لیا، تم ناکام رہے، اب حکومت چھوڑ دو۔‘‘
دیرینہ مؤقف
گزشتہ ہفنتے تیونس کی اسلام پسند حکمران جماعت النہضہ کے سربراہ راشد غنوشی نے حکومت کے استعفے اور غیر جانبدار کابینہ کی تشکیل کےمطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ غنوشی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی جماعت کا مؤقف دہرایا تھا کہ وہ صرف اسلام پسند وزیر اعظم علی العریض کی سربراہی میں قومی اتحاد کی حکومت قبول کریں گے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ اپوزیشن کے مطالبے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ’’اس مطالبے سے انتقالِ اقتدار کا عمل متاثر ہو گا۔‘‘
خیال رہے کہ تیونس کی قومی اسمبلی میں النہضہ کو اکثریت حاصل ہے جو اسے 2011ء میں آمر صدر زین العابدین کی عوامی احتجاج کے بعد اقتدار سے بے دخلی کے بعد ہونے والے انتخابات میں فتح کے ذریعےحاصل ہوئی تھی۔ اس اسمبلی کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک سال کے اندر نیا آئین تیار کرے، تاہم یہ اسمبلی اب تک صرف آئین کا مسودہ ہی تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی ہے جسے ترامیم کے بعد رائے شماری کے لیے پیش کیا جا سکے گا۔
پہلے استعفیٰ
تیونس کی مرکزی لیبر یونین حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت کاری کر رہی ہے۔ النہضہ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ وہ اصولی طور پر ٹیکنوکریٹک حکومت کے قیام پر رضامند ہے تاہم کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے اسے مزید غور کرنا ہوگا۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ حکومت کا تاخیری حربہ ہے اور یہ کہ کسی بھی طرح کی بات چیت کے لیے پہلے حکومت تحلیل کی جانا چاہیے۔
اس حوالے سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے پہلے حکومت کا مستعفی ہونا لازمی ہے۔