تیونس میں خونریزی کے بعد کرفیو نافذ
13 جنوری 2011جمعرات کو دارالحکومت تیونس کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں میں سوار سکیورٹی فورسز کے دستے گشت کرتے رہے۔ تیونس کی حکومت نے بڑی کوشش کی کہ عوامی مظاہروں کی یہ لہر دارالحکومت تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن یہ مظاہرے اور احتجاج شروع ہونے کے قریب چار ہفتے بعد ایسا ہی ہوا۔ شہر کی سڑکوں پر ہونے والے بد امنی کے واقعات میں بدھ کو بھی متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس کی وجہ سے شہر میں کرفیو لگانے اور بکتر بند سکیورٹی دستے طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن تیونس میں اگر بظاہر چند گھنٹوں کے لیے سکون کی امید پیدا ہوئی تو دو دیگر شہروں، ’دُوز اور تآلہ‘ میں حالات اتنے خراب ہو گئے کہ سکیورٹی دستوں کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ کے مختلف واقعات میں کم از کم سات افراد مارے گئے۔ ان ہلاکتوں کی عینی شاہدین نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
دوسری طرف جمعرات کے روز جھڑپوں میں مزید تین مظاہرین کی ہلاکت کے بعد تیونس میں گزشتہ قریب ایک مہینے کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد اب 50 سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ تیونس میں مظاہرے مسلسل زیادہ اور خونریز تر ہوتے جا رہے اور اس عوامی احتجاج کو روکنے کی حکومت بھر پور کوششیں کر رہی ہے۔
اسی پس منظر میں وزیر داخلہ کو برطرف بھی کیا جاچکا ہے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی طرف سے فرائض کی انجام دہی کے دوران طاقت کے غیر ضروری حد تک زیادہ استعمال سے متعلق الزامات کی چھان بین کرائی جائے گی۔ تیونس کے وزیر اعظم کی طرف سے پولیس اورداخلی سلامتی کے نگران وزیر داخلہ رفیق قاسم کی برطرفی کا سبب، پولیس کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا وہ بے دریغ استعمال بنا، جس کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تیونس میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافےاور ملک میں بے روزگاری کی بہت اونچی شرح کے خلاف شروع ہونے والا عوامی احتجاج حکومت کے لیے نا قابل کنٹرول ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے دارالحکومت کی تمام اہم سڑکوں اور سرکاری عمارات کی خصوصی حفاظت کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین نے پولیس کی طرف سے طاقت کے بےجا استعمال کی مذمت کی ہے۔ اقوم متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر نے مطالبہ کیا ہے کہ تیونس میں تشدد کی موجودہ لہراور ہلاکتوں کی بین الاقوامی چھان بین کرائی جائے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ اسے خونریزی کی اِس لہر پر گہری تشویش ہے، جو فوری طور پر رکنی چاہیے۔ تیونس میں ہونے والی جھڑپوں اور مظاہروں میں اگرچہ مزید تین افراد ہلاک ہو گئے، لیکن مجموعی طور پرحالات میں ٹھہراؤ آتا نظر آنے لگا ہے۔ تاہم وہاں کی صورت حال کب تک پرسکون ہو سکے گی، اس بارے میں فی الحال یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت :شادی خان سیف