تیونس میں فسادات پر قابو پانے کے لئے قومی حکومت کا قیام
18 جنوری 2011وزیر اعظم محمد الغنوشی نے قومی حکومت کے قیام کے اعلان میں کہا کہ اس عمل سے تیونس کے اندر امن و سلامتی کو استحکام ملے گا اور شہروں کے اندر فسادات کا خاتمہ ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائے گا اور کرپشن سے کمائی ہوئی رقم امراء سے واپس لی جائے گی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیر اعظم کا تعلق فرار ہونے والے صدر زین العابدین بن علی کی جماعت RCD سے ہے۔ نئی قومی حکومت میں اسی جماعت سے زیادہ وزراء لیے گئے ہیں جو اہم وزارتوں پر پہلے سے فائز ہیں۔
سابقہ حکومت کے داخلہ، خارجہ، دفاع اور مالیات کے وزراء بدستور نئی حکومت میں بحال رکھے گئے ہیں۔ قومی حکومت میں پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی احمد نجیب الشابی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کے دوسرے اراکین میں احمد ابراہیم، مصطفیٰ بن جعفر کے نام شامل ہیں۔
قومی حکومت کے اعلان سے قبل بھی دارالحکومت تیونس کی سڑکوں پر سینکڑوں افراد نے محمد الغنوشی کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے حق میں نعرہ بازی کی۔ ان افراد کا خیال ہے کہ الغنوشی کی حکومت اصلاحات کے عوامی مطالبات کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ لوگ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ وہ ففریعا اور الغنوشی کے چہروں سے اکتائے ہوئے ہیں اور یہ لوگ بن علی کے نظام کا تسلسل ہیں۔
تیونس کے مرکزی بینک کے اعلیٰ عہدیدار نے ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ سابق صدر بن علی فرار ہوتے وقت ڈیڑھ ٹن سونا اور چھیاسٹھ ملین ڈالر رقم ساتھ لے کر گئے ہیں۔ وزیر داخلہ احمد فریعا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں سابقہ حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں کل ہلاک شدگان کی تعداد 78 ہے۔
احمد فریعا کے مطابق فسادات کے دوران تیونس کی اقتصادیات کو کم از کم دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ مراکش اور اردن سمیت دوسرے عرب ملکوں کی مالی منڈیوں کو زین العابدین بن علی کی حکومت کے خاتمے سے مندی کا سامنا ہے۔
ادہر برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے تیونس میں قومی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اصلاحاتی عمل کو جاری رکھے اور آزاد اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنائے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف