تیونس میں چھ ماہ کے اندر ایک دوسری نئی حکومت کا قیام
25 اگست 2020تیونس میں نامزد وزیراعظم ہشام مشیشی نے منگل کے روز گزشتہ چھ ماہ کے دوران دوسری نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے اپنی کابینہ کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ وہ گزشتہ ایک برس سے بھی کم مدت میں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے والے تیسرے شخص ہیں۔ لیکن نئی حکومت کو پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ابھی باقی ہے جبکہ بہت سے ارکان پارلیمان اس بات پر حیران ہیں کہ حلیف جماعتوں سے صلاح و مشورے کے بغیر ہی یہ کابینہ کس طرح تشکیل دیدی گئی۔
تیونس کے وزیر اعظم الیاس فخ فاخ پانچ ماہ قبل ہی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اختلافات کے سبب گزشتہ ماہ کے وسط میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے سبب ملک میں ایک نیا سیاسی بحران کھڑا ہوگیا تھا۔ اسی کے بعد سے سیاسی جماعتوں سے صلاح و مشورے کے بعد ہشام مشیشی نے نئی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
تیونس میں معیشت کا پہلے ہی سے برا حال تھا اور کورونا وائرس کی وبا نے اس پر آگ میں گھی کا کام کیا ہے۔ ہشام مشیشی نے اس صورت حال سے نمٹنے اور مسائل کے حل کے لیے آزاد ٹیکنوکریٹس کے ساتھ مل کو حکومت بنانے کی بات کہی تھی۔ لیکن 46 سالہ رہنما نے حکومت سازی کے اس عمل میں بات چیت کے دوران اپنی ہی اہم حلیف جماعت النہضہ سے صلاح و مشورہ نہیں کیا۔
تیونس میں اسلام پسند جماعت النہضہ سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے ارکان پارلیمان کی تعداد بھی دوسری جماعتوں سے زیادہ ہے۔ النہضہ کو ہشام مشیشی کی ان کوششوں سے کافی مایوسی ہوئی ہے جس کا موقف یہ رہا ہے کہ حکومت میں سبھی جماعتوں کی برابر کی نمائندگی ہونی چاہیے۔
کشمکش
گزشتہ برس تیونس کے پارلیمانی انتخابات میں النہضہ کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں تاہم وہ اکثریت سے محروم رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ سے اس نے مخلوط حکومت قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن اس نئی حکومت میں اسے جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے اس سے پارٹی کافی ناراض ہے۔ اس کے باوجود پارٹی نے نئے انتخابات کروانے پر زور بھی نہیں دیا تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پارلیمان میں نئی کابینہ اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر پائی تو پھر بہت ممکن ہے کا دوبارہ عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوجائے۔
ہشام مشیشی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں ان آزاد اراکین کو شامل کیا ہے جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین میں سے ہیں اور ماضی کے وزار کو بہت کم جگہ دی ہے۔
ہشام مشیشی پہلے تیونس کے وزیر داخلہ تھے جنہیں گزشتہ ماہ وزیر اعظم الیاس فخ فاخ کے استعفے کے بعد صدر قیس سعید نے حکومت کی ذمہ داری سونپی تھی۔
سن 2011 میں عرب بہار کا آغاز تیونس ہی سے ہوا تھا اور اس وقت عوامی انقلاب کے باعث طویل عرصے سے برسر اقتدار زین العابدین بن علی اقتدار سے الگ ہو گئے تھے۔ تاہم اس انقلاب کے بعد قدامت پسند جماعت النہضہ اور سیکولر جماعت نداء کی حکومتوں کے دوران معاشی اصلاحات نہ ہونے کے سبب بالخصوص نوجوان تیونسی مایوسی کا شکار ہیں۔
ص ز / ج ا (اے پی روئٹرز)