تیونس کے صدارتی انتخابات
23 نومبر 2014عرب اسپرنگ کی بنیاد رکھنے والے ملک تیونس میں عوام نے اپنی انقلابی تحریک سے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کی حکومت کو ختم کر دیا تھا۔ اُس کے بعد تیونس سیاسی انتشار کا شکار ہوتے بال بال بچا۔ اب اِس ملک کی عوام پہلی مرتبہ براہ راست جمہوری انداز میں اپنا صدر منتخب کرنے کے لیے رائے شماری میں شریک ہوئی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ النہضہ کے روحانی قائد راشد الغنوشی کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے تیونس میں اسلام پسند اور سیکولر قوتیں برسرپیکار ہوتے ہوتے رہ گئیں۔ ایسا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے بعد اب صدارتی الیکشن سے تیونس میں جمہوریت کی ہچکولے لیتی ہوئی کشتی کو دوام حاصل ہو گا۔
اِس وقت صدارتی الیکشن میں شریک ستائیس امیدواروں میں بزرگ سیاستدان باجی قائد السبسی کو فیورٹ سمجھا جا رہا ہے۔ السبسی کی قیادت میں سیکولر سیاسی جماعت ندا تیونس نے اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ ستاسی برس کے السبسی کو سبکدوش ہونے والے صدر منصف مرزوقی کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ صدارتی الیکشن میں ایک خاتون کلثوم کانُو بھی شامل ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ النہضہ کی جانب سے کوئی صدارتی امیدوار میدان میں موجود نہیں ہے۔ اس طرح وہ منصف مرزوقی کی حمایت واضح طور پر نہیں کر رہی۔ ایک اور صدارتی امیدوار حمہ الھمامی کو بھی اہم خیال کیا گیا ہے۔ الھمامی بائیں بازو کے امیدوار ہیں۔ اگر سیکولر ووٹ تقسیم ہوئے تو اُس کا فائدہ مرزوقی کو پہنچ سکتا ہے۔
عبوری حکومت کے وزیراعظم مہدی جمعہ نے انتخابی عمل کے انعقاد کو تاریخی اور شاندار قرار دیا۔ مہدی جمعہ نے انتخابی عمل کی تکمیل کو جمہوری اقدار میں پیش رفت اور سارے ملک میں مسرت کے فروغ کا نشان قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تیونس کے انتخابات سارے خطے کے لیے امید کا استعارہ بھی ہے اور مجموعی سیاسی صورت حال میں بہتری کا سبب بھی بنیں گے۔ صدارتی الیکشن میں 5.3 ملین سے زائد افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ الجزائر کے سرحدی علاقوں کے پچاس قصبات کے لیے صرف پانچ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں تا کہ سکیورٹی کے معقول انتظامات کے باعث مسلم انتہا پسندوں پولنگ کے عمل کو درہم برہم نہ کر سکیں۔
سن 2011 کے انقلاب تک تیونس میں حکومت صرف دو صدور نے کی تھی۔ ایک حبیب بُو رقیبہ اور دوسرے زین العابدین بن علی تھے۔ حبیب بُو رقیبہ کو تیونس میں بابائے قوم قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں سن 1987 میں زین العابدین بن علی نے معزول کر کے حکومت کی باگ ڈور خود سنبھال لی تھی۔ صدارتی الیکشن کے فیورٹ باجی قائد السبیسی نے ریاست کی ازسرنو تعمیر پر انتخابی مہم کو چلایا۔ انہوں نے دارالحکومت کے نواح میں اپنا ووٹ ڈالا۔ سبکدوش ہونے والے صدر منصف مرزوقی کا دعویٰ ہے کہ وہ انقلاب کی باقیات کو سنبھالنے کے واحد اہل ہیں۔ ایسے امکان ظاہر ہوئے ہیں کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود سیکولر ندا تیونس اور اعتدال پسند اسلامی جماعت النہضہ کی مخلوط قائم ہو سکتی ہے۔