جاسوس، ہیکرز، مخبر - چین کس طرح امریکہ کی جاسوسی کرتا ہے؟
9 فروری 2023ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے 2020ء میں کہا تھا، ''چینی جاسوسی ہماری قوم کی معلومات، دانشورانہ املاک اور ہماری اقتصادی قوت کے لیے سب سے بڑا اور طویل المدتی خطرہ ہے۔‘‘ تب چین کی وزارت خارجہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک ''جاسوسی کی کارروائیوں کی مخالفت‘‘ کرتا ہے اور یہ کہ امریکی الزامات ''غلط معلومات اور مذموم سیاسی مقاصد پر مبنی ہیں۔‘‘
امریکہ کے پاس بھی چین کی جاسوسی کے اپنے طریقے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کے پاس نگرانی اور خفیہ معلومات تک رسائی کی تکنیکوں کے ساتھ ساتھ مخبروں کے کئی نیٹ ورک موجود ہیں۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے 2015ء میں کہا تھا کہ ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے تجارتی سائبر جاسوسی نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے بعد میں جاری کردہ بیانات میں اشارہ دیا گیا کہ یہ مشق جاری ہے۔ بیجنگ نے حالیہ چند برسوں میں امریکہ کی جاسوسی کیسے کی؟ چند ایک طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔
سیٹلائیٹ ہیں تو جاسوس غبارہ کیوں؟
امریکہ نے 2022ء میں اپنی سالانہ انٹیلی جنس رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ ایشیائی طاقت چین ''امریکی حکومت اور نجی شعبے کے لیے سب سے وسیع، سب سے زیادہ فعال اور مسلسل سائبر جاسوسی کے خطرے‘‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔ محققین اور مغربی انٹیلی جنس حکام کے مطابق چین صنعتی اور تجارتی راز چوری کرنے کے لیے حریف ممالک کے کمپیوٹر سسٹمز کو ہیک کرنے میں ماہر ہو گیا ہے۔
سن 2021ء میں امریکہ، نیٹو اور ان کے دیگر اتحادیوں نے کہا کہ چین نے مائیکروسافٹ ای میل سسٹم میں پائی جانے والی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ''کنٹریکٹ ہیکرز‘‘ کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ اس کے ریاستی سکیورٹی ایجنٹوں کو ای میلز، کارپوریٹ ڈیٹا اور دیگر حساس معلومات تک رسائی حاصل ہو سکے۔
امریکی حکومت کے بیانات اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق چینی سائبر جاسوسوں نے امریکی محکمہ توانائی، یوٹیلیٹی کمپنیوں، ٹیلی کمیونیکیشن فرموں اور یونیورسٹیوں کو بھی ہیک کیا۔
بیجنگ کی طرف سے جاسوسی کا خطرہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی پھیل چکا ہے کیوں کہ ایسے خدشات ہیں کہ ریاست سے منسلک چینی کمپنیوں کو حکومت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ انہی خدشات کو بنیاد بناتے ہوئے امریکہ محکمہ انصاف نے سن 2019ء میں چینی کمپنی ہواوے پر تجارتی راز چرانے اور دیگر جرائم کا الزام عائد کیا تھا۔
امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور نگرانی والے کیمروں پر پابندی لگادی
اسی طرح مغرب میں ان دنوں ٹک ٹاک کے حوالے سے بھی اسی طرح کی بحث جاری ہے۔ یہاں تک کہ کچھ قانون سازوں نے ڈیٹا سکیورٹی کے خدشات کے حوالے سے چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی تیار کردہ اس انتہائی مقبول ایپ پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماہرین، امریکی قانون سازوں اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق بیجنگ حکومت انٹیلی جنس جمع کرنے اور حساس ٹیکنالوجی کی چوری میں مدد کے لیے بیرون ملک چینی شہریوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ مشہور کیسوں میں سے ایک جی چاؤکون کا تھا، جنہیں جنوری میں امریکہ میں آٹھ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ چینی انٹیلی جنس ایجنسی کو ممکنہ بھرتیوں کے اپنے اہداف کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے۔
جرمنی میں غیر ملکی جاسوسی کی بڑھتی سرگرمیاں، جرمن انٹیلیجنس
اسی طرح اس چینی انجنئیر کا کیس بھی مشہور ہوا، جو سن 2013ء میں اسٹوڈنٹ ویزے پر امریکہ میں آیا تھا اور بعدازاں اس نے ''آرمی ریزروز‘‘ میں شمولیت اختیار کی تھی۔جی پر صوبے جیانگ سوکی وزارت برائے ریاستی سلامتی کو آٹھ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا الزام تھا۔ وہ ایک ایسے انٹیلی جنس یونٹ کے لیے کام کر رہا تھا، جس پر امریکی تجارتی رازوں کی چوری میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
ستمبر 2022 میں اسپین کی ایک غیر سرکاری تنظیم ''سیف گارڈ ڈیفینڈرز‘‘ نے کہا تھا کہ چین نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں 54 خفیہ پولیس اسٹیشن قائم کر رکھے ہیں اور ان کا مقصد مبینہ طور پر کمیونسٹ پارٹی کے ناقدین کو نشانہ بنانا ہے۔ نیدرلینڈ نے نومبر میں چین کو وہاں کے دو مبینہ ''پولیس اسٹیشن‘‘ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد جمہوریہ چیک نے کہا تھا کہ چین نے پراگ میں ایسے دو مراکز بند کر دیے ہیں۔
ا ا / ا ب ا (اے ایف پی)