1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جامعہ کے طلبہ پر پولیس کا تشدد اور ’وائس چانسلر کی بے بسی‘

جاوید اختر، نئی دہلی
13 جنوری 2020

بھارت کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر دہلی پولیس کے شدید تشدد کے تقریباً ایک ماہ بعد بھی مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔ اب یونیورسٹی انتظامیہ نے مجبوراً عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3W8ZY
Indien Protest gegen neues Einbürgerungsgesetz
تصویر: DW/D. Choubey

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن انہیں اب تک کامیابی نہیں مل سکی۔ گزشتہ پندرہ دسمبر کو دہلی پولیس کے اہلکار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں داخل ہو گئے تھے اور انہوں نے لائبریری میں پڑھنے والے طلبہ پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائیں، انہیں بری طرح زدوکوب کیا، کھڑکیاں اورکتابوں کے شیلف توڑ ڈالے اور آنسو گیس کے شیل بھی برسائے۔ اس واقعے میں درجنوں طلبا اور طالبات زخمی ہوئے، جب کہ ایک طالب علم کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوئی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرتشدد مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو تلاش کرتے ہوئے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوئی تھی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ پولیس کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے، جبکہ پولیس کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ لائبریری میں مطالعہ کرنے والے طلبہ کیوں مارا پیٹا گیا؟

پولیس کی زیادتی کے خلاف کارروائی کے مطالبہ پر زور دینے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے مسلسل پرامن احتجاجی دھرنا دے رہے ہیں۔گو کہ انہیں سماج کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور عوام کی بھرپور حمایت مل رہی ہے۔ لیکن پولیس اہلکاروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

Indien Protest gegen neues Einbürgerungsgesetz
تصویر: DW/S. Kumar

پندرہ دسمبرکے واقعے کے بعد یونیورسٹی بند کر دی گئی تھی۔ آج جب یونیورسٹی کھلی تو ناراض طلبہ نے وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراو کیا۔ طلبہ کے دو گھنٹے تک کے گھیراؤ اور نعرے بازی کے بعد وائس چانسلر نجمہ اختر اپنے دفتر سے باہر آئیں اور طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے بے بسی کے لہجے میں کہا،”ہمارے کیمپس میں پولیس بلا اجازت داخل ہوئی تھی۔ معصوم طلبہ کو پیٹا گیا۔ پولیس ہماری ایف آئی آر بھی درج نہیں کر رہی ہے۔ ہم اس سے آگے کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہم سرکاری ملازم ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں حکومت سے بھی شکایت کی ہے۔ ضرورت پڑنے پر ہم ہائی کورٹ بھی جائیں گے۔"

جامعہ نے بعد میں ایک بیان جاری کر کے کہا،”یونیورسٹی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات پر عمل کر چکی ہے۔ اس نے اپنی درخواست جامعہ نگر تھانے میں دی اور اس کی نقول دہلی کے پولیس کمشنر اور جنوب مشرقی دہلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر کو بھی دیں۔

ناراض طلبہ نے وائس چانسلر سے کئی سوالات پوچھے۔ اس سوال پر کہ وہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت سے کب رجوع کر رہی ہیں؟ نجمہ اختر کا کہنا تھا،”آپ مجھ سے تاریخ مت پوچھیے، میں نے آپ سے کہہ دیا تو یہ ہوکر رہے گا۔ ہم کوشش ہی کر سکتے ہیں اور کوشش ہی کر رہے ہیں۔ آپ لوگ تھوڑا ٹائم دیجیے۔ ہم عدالت جائیں گے اور عدالت کی تاریخیں ہم طے نہیں کر سکتے۔"

طلبہ نے اپنا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں وائس چانسلر کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ پولیس کے بجائے مظاہرے کے دوران اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے طلبہ کے خلاف ہی مقدمہ درج کروا دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی مسلم ونگ 'راشٹریہ مسلم منچ‘ کے سربراہ اندریش کمار کے ساتھ وائس چانسلر نجمہ اختر کے تعلقات پر بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ نجمہ اختر وائس چانسلر بننے کے بعد اندریش کمار سے ملاقات کے لیے گئی تھیں اور اندریش کمار کے سامنے سر جھکا کر آشیرواد لیتے ہوئے ان کی ایک تصویر وائرل ہو گئی تھی۔ اس کے بعد نجمہ اختر پر آر ایس ایس کے ساتھ مبینہ تعلقات کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ اندریش کمار وہی شخص ہیں، جن کا نام سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکا معاملے میں بھی آ چکا ہے۔