جاپان میں جوہری پاور پلانٹس کا نقصان، چین کا ردِ عمل
15 مارچ 2011بحرالکال کے رِنگ آف فائر کے ساتھ واقع ایشیائی ممالک درحقیقت آتش فشانوں پر کھڑے ہیں۔ اس خطے میں زلزلے اور آتش فشاں پھٹنے کے واقعات باقاعدگی سے دیکھے گئے، جن میں 2004ء میں آنے والا سونامی بالخصوص بھلایا نہیں جا سکتا۔
اسی خطے میں موجود جاپان کو اب زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا سامنا ہے، تاہم خطے کے دیگر ممالک میں اس تباہی پر وہ ردعمل سامنے نہیں آیا جو امریکہ اور یورپ کی طرف سے اس پر ظاہر کیا جارہا ہے۔
ایشیا پیسیفک دنیا میں اقتصادی ترقی کے لحاظ سے زبردست خطہ ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اس خطے کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں میں بھی توانائی کی طلب بہت زیادہ ہے، جسے پورا کرنے کے لیے جوہری پاور پلانٹس سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ توانائی کے حصول کا یہ طریقہ جاپان، چین اور جنوبی کوریا میں زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
اب ایک طرف جاپان میں حالیہ زلزلے کے نتیجے میں جوہری پاور پلانٹس کو نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب چین نے اپنے جوہری منصوبوں کی بڑے پیمانے پر توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم جاپان میں پیش آنے والے حالات نے معاملے کی نزاکت کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ اس بارے میں چین کے وزیر ماحولیات Zhang Lijun کہتے ہیں، ’چین اپنے جوہری منصوبوں کے حوالے سے جاپان کے حالات سے سبق ضرور سیکھے گا، لیکن زیادہ سے زیادہ جوہری توانائی حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے منصوبے تبدیل نہیں کیے جائیں گے۔‘
چین میں آئندہ چار برس کے دوران 28 نئے نیوکلیئر پاور پلانٹ قائم کیے جائیں گے۔ وہاں کے عوام میں اس حوالے سے کوئی خاص مزاحمت بھی نہیں پائی جاتی، اس کے برعکس چین کے متعدد انٹرنیٹ فورمز پر جاپان جیسے روایتی حریف کے حالات پر جو بیان سامنے آ رہے ہیں، ان میں کہیں کہیں ’دبی دبی سی خوشی‘ کا عنصر بھی دکھائی دیتا ہے۔
رپورٹ: زیبیلے گولٹے/ندیم گِل
ادارت: افسر اعوان