1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان میں زلزلہ اور سونامی، بزرگ شہری خاص طور پر متاثر

18 مارچ 2011

جاپان میں ٹھیک ایک ہفتہ قبل آنے والے ہولناک زلزلے اور سونامی نے خاص طور پر بزرگ شہریوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ متاثرہ علاقوں کی آبادی میں بوڑھے شہریوں کا تناسب انتہائی حد تک زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/RAOQ
تصویر: picture alliance/ZUMA Press

ضعیف شہریوں کو عارضی رہائش گاہوں میں قیام اور زلزلے وسونامی کے بعد کی بحرانی صورت حال کے دوران بچوں اور جوانوں کی نسبت کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہت سے تباہ شدہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ اشیائے خوراک اور ایندھن کی بھی کافی قلت ہے۔

جمعہ گیارہ مارچ کو آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.9 رہی تھی۔ اس کے بعد سونامی لہروں نے بھی شدید تباہی مچائی۔ زیادہ تر متاثرہ علاقے شمال مشرقی جاپان کے ایسے دور دراز قصبے اور ماہی گیروں کے دیہات ہیں جہاں عام شہریوں کی اوسط عمر ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت واضح طور پر زیادہ ہے۔

Japan Erdbeben Tsunami
گیارہ مارچ کو آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.9 رہی تھیتصویر: dapd

ان علاقوں میں بوڑھے جاپانیوں کی آبادی اس لیے غیر معمولی حد تک زیادہ ہے کہ وہاں سے ان بزرگ شہریوں کی اگلی نسلیں بڑے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرچکی ہیں۔ اس باعث یہ بزرگ افراد اکیلے رہ گئے تھے۔ نقل مکانی کی ایک دوسری وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بہت سے جاپانی باشندے پرسکون اور چین کی زندگی بسر کرنے کی خواہش میں خوبصورت اور پرسکون دیہی علاقوں کا رخ بھی کرچکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پچھلے جمعہ کے زلزلے اور سونامی نے جن عمارات اور رہائش گاہوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ بزرگ شہریوں کے لیے قائم اولڈ پیپلز ہوم تھے۔ ہونشو جزیر ے کے علاقے میاگی کے ایک مقام Minami Sanriku میں ایسا ایک اولڈ ہوم تو ساحل سمندر سے محض چند میٹر کے فاصلے پر تھا۔ اس عمارت اور اس کے رہنے والوں کو شدید زلزلے اور طوفانی رفتار والی سونامی لہروں سے شدید نقصان پہنچا۔

Japan nach dem Erdbeben und Tsunami
بہت سے تباہ شدہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ اشیائے خوراک اور ایندھن کی بھی کافی قلت ہےتصویر: AP

اس اولڈ ہوم میں رہنے والے بزرگ شہریوں کی تعداد 170 تھی، جن میں سے 30 ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ان لاپتہ بزرگ شہریوں کو ان کے اہل خانہ اور امدادی کارکن کل جمعرات کے دن تک بھی تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کوئی کامیابی نہ ملی۔ گیارہ مارچ کی تباہ کن قدرتی آفتوں کے فوری بعد اسکولوں اور مختلف پبلک عمارات میں جو ہنگامی مہاجر کیمپ قائم کیے گئے تھے وہاں بھی بہت سے مسائل پائے جاتے ہیں۔

ان کیمپوں میں پینے کے پانی، ایندھن، اشیائے خوراک، کمبلوں اور دیگر ضروری سامان کی قلت کا ذکر عام ہے۔ ایسے کیمپوں میں بہت کوشش کے باوجود بزرگ شہریوں کی کافی دیکھ بھال تا حال ممکن نہیں ہے۔ ایسے ہی ایک کیمپ میں مقیم ایک 70 سالہ مرد شہری نے جاپان کے سرکاری ٹیلی وژن این ایچ کے کو بتایا، ’میں خود کو دو تین کمبلوں میں لپیٹے رکھتا ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ سردی سے بچنے کے لیے میرا جسم گرم رہے۔ لیکن مجھے پھر بھی نیند نہیں آتی۔‘

حالیہ زلزلے کے بعد جاپان میں فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر میں متعدد دھماکے ہوئے اور وہاں سے خطرناک تابکاری شعاعیں بھی خارج ہونے لگیں۔ جب وہاں سے مقامی آبادی کو ہنگامی بنیادوں پر نکالنے کا کام شروع ہوا تو اس عمل میں بھی بہت سے بوڑھے افراد نقل مکانی پر مجبور کردیے گئے تھے۔

فوکوشیما کے ایٹمی پلانٹ سے کچھ ہی دور ایک اولڈ ہوم میں رہنے والے افراد میں سے 14 انتہائی عمر رسیدہ تھے۔ جب ان بزرگ شہریوں کو کچھ فاصلے پر ایک دوسرے اولڈ ہوم میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تو ان میں سے دو تو بس میں سفر کے دوران ہی انتقال کر گئے جبکہ باقی بارہ بھی اگلے ایک دو روز میں موت کے منہ میں چلے گئے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں