جاپان کے ساتھ جزائر کا تنازعہ: چینی جہاز متنازعہ علاقے میں
21 دسمبر 2012ٹوکیو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان متنازعہ جزائر کے گرد و نواح میں چینی بحری جہاز بھیجنے کا فیصلہ بیجنگ نے جاپان میں ایک نئی حکومت کے انتخاب کے بعد پہلی مرتبہ کیا ہے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ نئی پیش رفت ایک ایسا دھچکا ہے جس نے ان امیدوں کو متاثر کیا ہے کہ بیجنگ اور ٹوکیو جاپان میں حالیہ الیکشن کو اس بارے میں اپنے اختلافات ختم کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کر سکتے تھے۔
لیکن ان متنازعہ جزائر کے ارد گرد کے سمندری علاقے میں چینی بحری جہازوں کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ فریقین میں سے شاید کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے۔ چین اور جاپان کے درمیان گزشتہ کئی مہینوں سے ان جزائر کے بارے میں سخت بیان بازی ہوتی رہی ہے۔
ٹوکیو اور بیجنگ کے مابین جن جزائر کی ملکیت کا تنازعہ پایا جاتا ہے، ان کا انتظام جاپان کے پاس ہے۔ جاپان انہیں سینکاکس کا نام دیتا ہے جبکہ چین انہیں دیاؤیوس کہتا ہے۔ جاپانی کوسٹ گارڈز کے بقول چین کے بحری نگرانی کرنے والے تین جہاز آج سینکاکس جزائر کی سمندری حدود میں 12 میل اندر تک آ گئے۔ قریبی پانیوں میں ماہی گیری کے حوالے سے ایک چینی پٹرولنگ شپ بھی موجود تھا۔
ٹوکیو حکومت نے جزائر کے اس سلسلے کو اس سال ستمبر میں قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ جاپانی کوسٹ گارڈز کے بقول تب سے اب تک چینی بحری جہاز ان جزائر کی سمندری حدود میں کُل 19 مرتبہ داخل ہو چکے ہیں۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس طرز عمل کی وجہ یہ ہے کہ چین یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس سمندری علاقے میں اپنی مرضی سے آ جا سکتا ہے۔
اس تنازعے کے باعث چین اور جاپان کے مابین کشیدگی گزشتہ ہفتے اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی جب ایک چینی ہوائی جہاز نے اس علاقے کی فضا میں پرواز کی تھی۔ ٹوکیو حکومت کے بقول یہ کم از کم بھی 1958ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ چین نے ان جزائر کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ تب اس علاقے میں چینی ہوائی جہاز کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد ٹوکیو کے جنگی طیارے فوری طور پر حرکت میں آ گئے تھے۔
جاپان میں گزشتہ اتوار کو ہونے والے عام الیکشن میں شِنزو آبے کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی کے بعد سے سمندری انتظامی امور کے ملکی محکمے کے بحری جہاز اب تک ان جزائر کی سمندری حدود سے دور ہی رہے ہیں۔ لیکن شِنزو آبے نے، جو ٹوکیو میں نئی حکومت کے سربراہ ہوں گے، یہ کہنے میں دیر نہیں کی تھی کہ وہ Senkakus جزائر کے تنازعے میں بیجنگ کے بارے میں سخت پالیسی اپنائیں گے۔
(ij /mm (AFP