جاپان: ہلاکتوں و زخمیوں کی مجموعی تعداد 26 ہزار
24 مارچ 2011قومی پولیس ایجنسی نے 9700 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 16 ہزار سے زائد افراد کا اب تک سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔ 11 مارچ کے تباہ کن زلزلے کے سبب تین ہزار کے قریب شہری زخمی بھی ہوئے جبکہ بحر الکاہل کے کنارے پر آباد سب سے زیادہ متاثرہ ہونشو جزیرہ بربادی کی تصویر بن چکا ہے۔
جاپان کے اس زلزلے کو 1923ء کے کانتو زلزلے کے بعد کا شدید ترین بحران قرار دیا جا رہا ہے، جس میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ حالیہ زلزلے کے سبب ہزاروں لوگ اب تک عارضی خیمہ بستیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
جاپان کے متاثرہ فوکوشیما جوہری بجلی گھر سے تابکاری کے اخراج کے خوف سے دارالحکومت ٹوکیو میں بھی ویرانی بڑھنے لگی ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے سبب بیشتر غیر ملکی ٹوکیو چھوڑ چکے ہیں، مقامی باشندے گھروں سے بہت زیادہ باہر نہیں نکل رہے جبکہ تجارتی سرگرمیاں ماند پڑی ہوئی ہیں۔ روایتی طور پر چہل پہل اور زندگی سے بھرپور امپیرئل ہوٹل میں اب محض 15 رکنی عملہ ہی نظر آتا ہے۔
ہوٹل میں تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ یوکو کوماتسوزاکی کے بقول، ’ بیشتر پروگرام منسوخ کردیے گیے ہیں، بالخصوص غیر ملکیوں نے اپنی تمام سرگرمیاں ترک کردی ہیں۔‘
فوکو شیما کے بجلی گھر سے متعلق ہنگامی حالت کے اعلان اور پھر ٹوکیو کے پانی میں تابکاری کے اثرات نے غیر ملکیوں کے خوف کو یقین میں بدل دیا ہے۔ جاپان کو ایسے وقت میں اس آفت کا سامنا ہے جب موسم بہار کے سبب ملک بھر میں رنگ برنگے پھول سیاحوں کی راہ تک رہے ہیں۔ روایتی طور پر یہ وقت اس مشرقی ایشیائی ریاست میں سیاحت کے حوالے سے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔
ٹوکیو میں گرینڈ حیات، پارک حیات، ہپ سٹی، دی نیو اوتانی اور ماندارین اورینٹل ہوٹل کو بھی امپیرئل ہوٹل جیسے حالات کا سامنا ہے۔ بیشتر نے اپنے ریستوان اور بار بندکردیے ہیں یا ان کی اوقات کار میں کمی کردی ہے۔ جاپانی شہری ان بحرانی حالات سے نمٹنے کے لیے عزم و جذبے کا اظہار کر رہے ہیں مگر انہیں یہ خدشہ ہے کہ شاہد غیر ملکی جلد واپس ٹوکیو نہ آئیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ