جاپانی ايٹمی بحران: کاروباری اعتماد کو دھچکہ
14 اپریل 2011بين الاقوامی مالياتی فنڈ IMF نے خبردار کيا ہے کہ جاپان کے ايٹمی حا دثے پر قابو پانے کے کوئی آثار نظر نہيں آتے اور دنيا کی يہ تيسری بڑی معيشت يقينی طور پر زوال پذير ہے۔ جاپانی اقتصاديت ميں خرابی کے اثرات پوری عالمی معيشت پر پڑ سکتے ہيں۔
400 بڑی فرموں کے سروے سے يہ ظاہر ہوا ہے کہ فوکوشيما بجلی گھر کی تباہی سے بجلی کی جو قلت پيدا ہوئی ہے اس سے تقريباً 20 فيصد مقامی کمپنيوں ميں پيداوار اور فراہمی متاثر ہوئی اس کے عالمی اثرات يہ ہيں کہ Sony کارپوريشن نے پيداوارجزوی طور پر روک دی ہے اور دنيا کی سب سے بڑی آٹو موبائل کمپنی ٹويوٹا نے ملک کے اندر اور امريکہ ميں اپنے کئی کارخانوں ميں کام روک ديا ہے۔
IMF نے خبردار کيا ہے کہ اگر جاپان نے اپنے ايٹمی بحران پر جلد قابو نہيں پايا اور دو تين مہينوں کے اندر بجلی کی فراہمی پورے طور پر بحال نہيں کی اور اُسے اپنی پيداوار کو معمول پر لانے ميں کاميابی حاصل نہيں ہو سکی تو اس کی معيشت کو مزيد نقصان پہنچے گا۔
11 مارچ کو جاپان ميں زلزلے اور اس کے ساتھ ہی 15 ميٹر اونچی سونامی لہروں نے جو تباہی پھيلائی اُس کے نتيجے ميں اس ملک کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ رلزلے،سونامی اور ايٹمی بجلی گھر کی تباہی کے اخراجات کا اندازہ 300 ارب ڈالر لگايا جاتا ہے۔ اس طرح يہ دنيا کی سب سے مہنگی قدرتی آفت ہے۔
فوکوشيما بجلی گھر چلانے والی ٹوکيو اليکٹرک پاور کمپنی کے انجينئر، جو بجلی گھر کے ری ايکٹروں کی صورتحال پر کنٹرول کی کوششوں ميں مصروف ہيں، اب اس بارے ميں فکر مند ہيں کہ 11 مارچ کے زلزلے سے کہيں استعمال شدہ جوہری تابکار سلاخوں کو تو نقصان نہيں پہنچا ہے اور کہيں ان سے تو بہت زيادہ تابکاری خارج نہيں ہورہی ہے؟
جاپان کی نيو کلئر اور انڈسٹريل سيفٹی ايجينسی NISA نے فوکو شيما ايٹمی پلانٹ چلانے والی کمپنی سے کہا ہے کہ وہ پلانٹ کی تباہ شدہ عمارت کی، زلزلہ برداشت کرنے کی صلاحيت کی جانچ پڑتال کرے اور يہ اندازہ لگائے کہ کيا يہ عمارت زلزلے کےبعد طاقتور ضمنی جھٹکوں کو سہار سکتی ہے؟
پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے کے اندرونی نظام کی تباہی کے بعد انجينئر اور دوسرا عملہ ری ايکٹروں کے اندر اور باہرتالابوں ميں ذخيرہ کی جانے والی بہت زيادہ گرم جوہری سلاخوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ان پر مسلسل پانی ڈال رہے ہيں۔ اس طرح پلانٹ ميں 60 ہزار ٹن تابکار پانی جمع ہوگيا ہے۔ اس پانی کو سمندر ميں خارج کرنا پڑا۔ اس اخراج کو پير کے دن سے روک ديا گيا ہے ليکن اس سے ہمسايہ ممالک چين اور جنوبی کوريا کے ساتھ جاپان کے تعلقات متاثر ہوئے ہيں۔
استعمال شدہ گرم اور تابکارنيوکلئرفيول راڈز کو ٹھنڈا ہونے ميں کئی سال لگتے ہيں جس دوران ان سلاخوں کو پانی ميں ڈبوئے رکھنا لازمی ہوتا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک