جاپانی برآمدات میں ریکارڈ کمی
25 مارچ 20092008 کی آخری سہ ماہی میں اس کی اقتصادی کارکردگی 35 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ بدھ کو ٹوکیو حکام نےبرآمدات کے حجم میں ریکارڈ کمی کا اعلان کیا ہے۔
جاپانی وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ ماہ ملکی برآمدات میں 49.4 فیصد کمی ہوئی ہے جو گزشتہ برس اسی عر صے کے مقابلے میں نصف ہے۔ جنوری میں یہ شرح 45.7 فیصد تھی۔ تازہ صورت حال سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اقتصادی لحاظ سے رواں سہ ماہی میں ٹوکیو حکومت کو کچھ اور بری خبریں ملیں گی۔
جاپانی ماہر اقتصادیات ہیروشی شیرائیشی کا کہنا ہے کہ رواں سہ ماہی میں ملکی معیشت پر منفی اثر غالب رہے گا اور یہ سلسلہ کچھ عرصے تک یونہی چلتا رہے گا۔
ہول سیل اور بیرونی تجارت کی وفاقی جرمن فیڈریشن BGA کے صدر Anton Börner نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ مالیاتی بحران سے روزمرہ زندگی کی اشیائے ضرورت کی برآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں۔
"یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے کہیں زیادہ مشرقی یورپی ممالک بشمول روس اور ایشیا متاثر ہوا ہے۔ بالخصوص چین اور جاپان کی برآمدات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ "
فروری میں ہی جاپان کا تجارتی سرپلس 91.2 فیصد نیچے چلا گیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی جانب سے جاپان کو موصول ہونے والے سودوں کی تعداد نصف سے بھی کم ہو گئ ہے۔ چین سے ملنے والے سودوں میں تقریبا 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔
بڑی عالمی اقتصادی طاقتوں کی طرح جاپان کو بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین مالیاتی بحران کا سامنا ہے جس کے باعث اس کی کارسازی اور ٹیکنالوجی سے متعلق صنعت سب سے زیادہ متاثر ہے۔ ٹوئٹا اور سونی جیسی بڑی جاپانی کمپنیاں شدید مالی بدحالی کے دور سے گزر رہی ہیں جس کے باعث وہ ہزاروں ملازمیں کو برخاست کر چکی ہیں۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ اور چین کی جانب سے نئے سودوں میں کمی کے باعث جاپانی معیشت میں کسی مثبت تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
تیسری بڑی اقتصادی طاقت چین کی برآمدات میں بھی فروری میں گزشتہ سال اسی مہینے کے مقابلے میں 25.7 فیصد کمی ہوئی۔ مالیاتی بحران کی وجہ سے چین کے مجموعی تجارتی حجم میں 24.9 فیصد کمی ہوئی اور یہ 125 ارب ڈالر کی حد تک آ گیا۔
دُنیا کی چوتھی بڑی معیشت جرمنی میں بھی جنوری کے دوران مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سودے دسمبر کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم رہے۔ برلن حکومت کو 1990 کے بعد ایسی صورت حال کا سامنا دوسری مرتبہ کرنا پڑا۔ برطانیہ میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے، وہاں بھی جنوری کے دوران تجارتی حجم میں کمی ہوئی ہے۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ ہی سب سے پہلے اقتصادی بحران پر قابو پائے گا جس کے بعد دیگر معیشتوں کو بحالی کے لئے چھ ماہ مزید درکار ہوں گے۔
دُنیا کی بڑی معیشتوں کو درپیش اس صورت حال کا ذمے دار اقتصادی بحران کو قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ بحران طول پکڑ سکتا ہے۔ صورت حال پر غور کے لئے صنعتی ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کا آئندہ اجلاس اپریل میں ہو رہا ہے۔