جاپانی یرغمالی کی رہائی کے لیے ممتا کی درخواست
28 جنوری 2015اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک نئی ویڈیو میں جاپانی یرغمالی کینجی گوٹو کی زندگی بچانے کے لیے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کے بدلے اردن میں سزائے موت کی منتظر ایک عراقی خاتون ساجدہ الرشاوی کو رہا کیا جائے۔ الرشاوی کو 2005ء میں اردن کے دارالحکومت عمان میں ہونے والے خودکش حملے میں کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اس حملے میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی نئی ویڈیو میں سنائی دینے والی آواز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اردن کے پائلٹ معاذ الكساسبہ کے پاس بھی زندہ رہنے کے لیے کم وقت رہ گیا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائی کے دوران اردن کا ایک طیارہ اسلامک اسٹیٹ کے زیر قبضہ علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جبکہ اس کے پائلٹ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
کینجی گوٹو کی والدہ جُنکو ایشیڈو کی جانب سے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کے نام ایک خط تحریر کیا گیا جو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا: ’’برائے مہربانی کینجی کی زندگی بچائیں۔ میں آپ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ آپ اردن کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنی پوری قوت صرف کریں۔‘‘ ایشیڈو مزید لکھتی ہیں، ’’اس کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے... میں مِنت کرتی ہوں کہ آپ اپنی قوت میں جو ممکن ہو کریں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا اسلام کا دشمن نہیں ہے۔
دوسری طرف جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے نئی ویڈیو کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اردن حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ گوٹو کی جلد از جلد رہائی کے لیے تعاون کرے۔ تاہم انہوں نے اپنا یہ عزم بھی دہرایا ہے کہ جاپان دہشت گردی کے آگے نہیں جھکے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جاپانی کابینہ کے چیف سیکرٹری یوشی ہیڈی سوگا نے کہا ہے کہ ویڈیو میں دکھایا جانے والا شخص بظاہر گوٹو ہی لگتا ہے۔ ویڈیو میں سنائی دینے والی آواز بھی گوٹو کی اس آواز سے مماثلت رکھتی ہے جو گزشتہ اختتام ہفتہ پر منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں تھی۔ اس ویڈیو میں دوسرے جاپانی یرغمالی کی ہلاکت کی خبر دی گئی تھی۔ جاپانی اور امریکی حکومت نے اُس ویڈیو کے اصلی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ اگر تازہ ویڈیو کی تصدیق ہو گئی تو یہ تیسری ویڈیو ہو گی جس میں 47 سالہ سابق وار رپورٹر گوٹو کو دکھایا گیا ہے۔
قبل ازیں جاپانی وزیر خارجہ فومیو کیشیڈا نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ٹوکیو اردن کی حکومت کے ساتھ مل کر یرغمالی شہری کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے تاہم انہوں نے ان کوششوں کی کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی۔