جب آسمان ہی جل اٹھا
اکتیس مئی 1942ء کو جب جرمنی کے شہر کولون میں کارپٹ بمبنگ شروع کی گئی تو برطانیہ نے اسے ’آپریشن ملینیم‘ کا نام دیا۔ کولون کے شہری اسے ’ہزار بموں کی رات‘ کا نام دیتے ہیں۔ دو گھنٹوں کے اندر ہی شہر کا چہرہ بدل گیا تھا۔
صرف تاریخی کولون کیتھیڈرل کو بخشا گیا
ہر طرف بمباری کی گئی لیکن یورپ کے دوسرے اور دنیا کے تیسرے بلند ترین گرجا گھر (کولون کیتھیڈرل یا کولون ڈوم) کو بخش دیا گیا۔ حقیقت میں اس کے دو بڑے مینار پائلٹوں کے لیے فوکس پوائںٹ بھی تھے۔ مذہبی طرز تعمیر نے بھی اس کیتھیڈرل کے بچاؤ میں مدد دی۔
کولون کی دوبارہ تعمیر
سن 1945ء کے بعد سب کچھ تاریخی انداز میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ گھروں کی شدید ضرورت تھی۔ 3330 گھر اور 41 ہزار اپارٹمنٹس تباہ ہو چکے تھے۔ تیزی میں سستے گھر تعمیر کیے گئے لیکن تصویر میں نظر آنے والا کولون کا یہ حصہ تاریخی طرز تعمیر کا حامل ہے۔
جب جنگ گھر پہنچی
جب اکتیس مئی کی رات بارہ بج کر سینتالیس منٹ پر بمباری شروع ہوئی تو ڈوم کے قریب 469 شہری ہلاک ہوئے۔ برطانیہ کی شدید بمباری کی وجہ سے ہر طرف باردو کی بو تھی اور پینتالیس ہزار سے زائد شہری بے گھر ہو گئے تھے۔
پرانے کولون کا خاتمہ
اکتیس مئی کی بمباری نے پرانی رومن نوآبادی کے چہرے، قرون وسطیٰ کے عظیم تجارتی روٹ اور اس یونیورسٹی شہر کے چہرے پر ایسے داغ ڈالے، جنہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ کولون اپنے ڈوم اور دریائے رائن کے بغیر بدصورت شہر ہوتا۔
برطانیہ میں بھی متنازعہ
آرتھر ہیرس، جنہیں بمبار ہیرس بھی کہا جاتا ہے، کو جرمن شہروں پر ’کارپٹ بمباری کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی شہروں کو ہدف بنانے اور عوامی ارادوں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی کو برطانیہ میں بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان کا ایک مجسمہ بھی انتہائی خاموشی کے ساتھ نصب کر دیا گیا تھا۔
بمباری کرنے والے برطانوی پائلٹ
ونسٹن چرچل ہر صبح حملہ آور کمان کو فون کر کے جرمنی کے خلاف ملنے والی کامیابیوں کے بارے میں پوچھتے تھے۔ فضائیہ کے جنرل آرتھر کی کولون پر بمباری خود چرچل کے لیے بھی بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے آرتھر سے کہا تھا، ’’کولون پر بہت بمباری ہو چکی۔‘‘
’کولون کے لیے بم‘
جرمنی میں رات کے وقت بمباری کرنے کے لیے ایک لنکاسٹر بمبار کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا پوری جنگ فضائی حملوں سے جیتی جا سکتی تھی؟ اس بارے میں مؤرخین کی آراء مختلف ہیں۔ برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے لیے بھی نقصان کم نہیں تھا۔ کسی بھی جنگی ہوائی جہاز میں سوار ہر دوسرا شخص دوبارہ گھر نہیں پہنچا تھا۔
’بمبر ہیرس کی مردہ یادیں‘
ہیرس کی یادیں آج تک بارود سے جڑی ہوئی ہیں۔ ابھی تک کولون میں کھدائی کے دوران اس رات کے بم ملتے ہیں اور بعض اوقات پورے کے پورے علاقے خالی کرانا پڑتے ہیں۔ ابھی تک کولون کی زمین میں ایسے کتنے بم چھپے ہیں، کوئی بھی نہیں جانتا۔ ہیرس کے بقول، ’’وہ مکمل جنگ چاہتے تھے، ہم نے انہیں وہی کچھ دیا، جس کی انہوں نے بھیک مانگی تھی۔‘‘