جب تک چاہیں گے، شام میں رہیں گے، امریکا
28 ستمبر 2018شام کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے جیمز جیفری، اعلیٰ امریکی حکام کی جانب سے دیے گئے ایک حالیہ بیان کے حوالے سے صورتحال واضح کر رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوجی ایران کے مقابلے کے لیے غیر معینہ مدت تک شام میں موجود رہیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے میں صحافیوں نے جیمز جیفری سے جب یہ پوچھا کہ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام سے امریکی فوجیوں کے نکالنے کو ایرانی فورسز کے نکلنے سے مشروط کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا، ’’صدر چاہتے ہیں کہ ہم اُس وقت تک وہاں موجود رہیں جب تک یہ اور دیگر شرائط پوری نہیں ہو جاتیں۔‘‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا، ’’امریکا کا یہ مطلب نہیں کہ لازمی طور پر امریکی فوجی ہی وہاں موجود رہیں۔ کئی طریقے ہو سکتے ہیں کہ ہم وہاں موجود رہیں۔ ہم یقیناﹰ سفارتی طور پر بھی وہاں موجود ہیں۔‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی بات حتمی نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’فوجی موجودگی موجودہ مشن تک لازمی ہے جس کا مقصد داعش کو شکست دینا ہے۔‘‘
شام میں اس وقت امریکا کے دو ہزار فوجی تعینات ہیں تاہم ان کی تعیناتی کا مقصد کُرد فورسز کے علاوہ شامی عرب جنگجوؤں کو تربیت فراہم کرنا ہے جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
ٹرمپ کے سکیورٹی ایڈوائرز جان بولٹن نے شام کے حوالے سے پیر 24 ستمبر کو کہا تھا، ’’ہم اُس وقت تک وہاں سے نہیں نکلیں گے جب تک ایرانی فوجی دستے ایرانی سرحدوں کے اندر واپس نہیں چلے جاتے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے علاوہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو براہ راست مدد فراہم کر رہا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ 26 ستمبر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران حکومت دہشت گرد گروپ داعش کو شکست دینے کے لیے عمل پیرا ہے اور جب تک شامی حکومت درخواست کرے گی ایرانی فوجی شام میں موجود رہیں گے۔
حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا آخر کیوں اپنے گھر سے اتنا دور کہیں فوجی دخل دے رہا ہے۔
ا ب ا /ع ت (اے ایف پی)