1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جب لاہور ہائی کورٹ کے جج کو ’بااثر وکیل‘ نے گالیاں دیں

19 مئی 2021

جون، جولائی 1993 کی ایک تپتی دوپہر، لاہور ہائیکورٹ کی سو سالہ پرانی عمارت کے ٹھنڈے برآمدوں سے گزرتا ہوا ایک رپورٹر خبر کی تلاش میں نئے بلاک کی بالائی منزل پر واقع ایک فاضل جج صاحب کے کمرہ عدالت میں داخل ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3talG
Muhammad Akram
تصویر: privat

کمرے میں عدالت کا عملہ، چند سائیلین اور ان کے وکلاء جج صاحب کی آمد کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایئرکنڈشنرکمرے میں دیگر اخبارات کے چند رپورٹرز شدید گرمی سے پناہ لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اچانک ریٹائرنگ روم کا دروازہ کھلتا ہے اور جج صاحب چند قدم چلتے ہوئے اپنی بھاری بھر کم کرسی کی طرف بڑھتے ہیں۔ کمرہ عدالت میں چند وکلاء کے علاوہ تمام افراد جج صاحب کے احترام میں اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جج صاحب کے نشت پر براجمان ہونے تک کھڑے رہتے ہیں۔ جج صاحب کے احترام میں اپنی نشستوں سے نہ اٹھنے والے وکیلوں میں سے ایک وکیل صاحب وہ تھے، جو حال ہی میں سیاسی حکومت کے خاتمے پر اٹارنی جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔

 جج صاحب ابھی پوری طرح سے اپنی نشست بھی نہیں سنبھالتے کہ سابق اٹارنی جنرل صاحب اپنے نشست سے اٹھ کر تیزی سے جج صاحب کے بالکل سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں اور خالص 'جانگلی‘ زبان میں منہ بھر بھر کر جج صاحب کوگالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو سے جو بات تحریر میں لائی جاسکتی ہے وہ ایک ہی جملہ ہے، 'تمہیں ہمت کیسے ہوئی اس کیس کو سننے کی‘۔ یخ بستہ کمرے میں اچانک پیدا ہونے والی گرمی وہاں موجود تمام لوگوں کو چونکا دیتی ہے۔

 اگلے ہی لمحے جج صاحب بغیر کچھ کہے تیزی سے کرسی سے اٹھ کر الٹے پاؤں اپنے ریٹائرنگ کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل صاحب اور ان کے ساتھی وکلاء اپنا 'مشن‘ مکمل کر کے نہایت اطمینان سے وہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اخبارکا رپورٹر اپنے ساتھی رپورٹروں کے ساتھ عدالتی عملے سے مقدمے کی تفصیلات پوچھتا ہے، جس کی سماعت شروع ہونے سے پہلے اور جج صاحب کے عدالت سے بھاگتے ہی ختم ہو گئی تھی۔ وہ جج صاحب لاہور ہائی کورٹ کے کمپنی جج تھے اور شریف خاندان کی کمپنیوں کے معاملات کی سماعت کر رہے تھے۔

اب اس کی خبر کیا بنائی جائے! وہاں موجود رپورٹرز ایک دوسرے سے پوچھنے لگتے ہیں، مگر کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ایک اخباری رپورٹرکمرہ عدالت میں ہونے والے تمام واقعہ کو خبر کی صورت میں لکھتا ہے اور شام کو ایڈیٹر کے پاس لے جاتا ہے، ایڈیٹر اس افتاد نما خبر کو دیکھ کر پہلے اپنی داڑھی کھجاتے ہیں، پھر سگریٹ سلگاتے ہیں اور رپورٹر سے پوچھتے ہیں۔ سائیں، یہ خبر چھاپ دیں کیا؟ اخباری رپورٹر کہتا ہے معاملہ من و عن لکھ دیا ہے، ہو سکتا ہے کل کوئی دوسرا اخبار چھاپ دے اور ہمیں خبر کی مسنگ پڑ جائے۔

 یار مجھے توہین عدالت کا نوٹس پسند نہیں، خواہ مخواہ کی خواری ہوتی ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا تو رپورٹر، ایڈیٹر کی میز پر پڑی خبر اٹھاتا ہے اور خود کو کوستا ہوا کہ خواہ مخواہ اتنی محنت کی، واپس اپنے ڈیسک پر آجاتا ہے۔ دیگر خبریں فائل کرنے کے بعد اس کا دھیان ایک بار پھر واپس مسترد ہونے والی خبر کی طرف جاتا ہے۔ پھر وہ اسے اپنی دراز میں رکھ کر دفتر سے نکل جاتا ہے کہ شاید کوئی دوسرا اخبار اس خبر کو چھاپ دے۔

اگلے دن صبح اٹھتے ہی رپورٹر اخبارکے بنڈل کی طرف لپکتا ہے، ایک ایک اخبار کی چھان پھٹک کرتا ہے، مگر کسی بھی اخبار میں اسے وہ خبر نہیں ملتی۔

 مزید برآں وکیل کو جج صاحب سے بھری عدالت میں بدتمیزی کرنے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوتا ہے اور نہ ہی بار کونسل اس کی وکالت کا لائسنس معطل کرتی ہے۔

پاکستان کا عدالتی نظام ہمیشہ سے طاقتوروں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا کام کرتا آیا ہے۔ گزشتہ صدی کی 50 ویں دہائی سے مولوی تمیزالدین کیس میں نظریہ ضرورت کی آڑ میں پہلے مارشل لاء کو جواز فراہم کرنے سے لے کر اب تک کے آخری 1998 کے جنرل مشرف کے چوتھے مارشل لاء تک ملک کی اعلی عدالتوں نے اعلی نظیریں قائم کی ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور سیاہ میں عدالتوں سے جو کھیلواڑ ہوا اور ججوں کی تقرری کے جو معیارات طے کیے، اس کے نتیجے میں اعلی عدلیہ کے ججوں کا ملک و قوم کے ساتھ سلوک  کا خلاصہ ماسوائے اس کے کیا ہو گا کہ عدالتی بینچ کی تشکیل سے ہی مقدمے کا نتیجہ اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ یہ فارمولا تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر بڑی عدالت پر ثابت ہوتا ہے مگر اس معاملے میں دہائیوں سے لاہور ہائی کورٹ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔

پاکستان میں عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی خواہش میں عوام اور سول سوسائٹی نے 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔ 'ریاست ہو گی ماں کے جیسے‘ کے نعرے نے بھی لوگوں کے دلوں کو خوب گرمایا۔ مگر یہ تحریک عدلیہ بحالی کی بجائے جج کی نوکری کی بحالی تحریک ثابت ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں مخصوص وکلاء چیمبرز راتوں رات ارب پتی ہو گئے۔ کس چیمبر کا وکیل ہائی کورٹ کا جج مقرر ہو گا، یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوتی گئی۔

پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک میں آئین اور پارلیمنٹ کے قیام کے لئے 2010 میں 18ویں ترمیم منظور کی۔ اس ترمیم کے ماتحت اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا معاملہ ججوں کی صوابدید اور وکلاء کے چیمبرزکی سفارشوں سے نکال کر پارلیمان میں لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ مگر انہیں سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر سوار ہو کر واپس چیف جسٹس بحال ہونے والے افتخار محمد چوہدری نے پارلیمان کے اس بنیادی حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے، ججوں کی تقرری کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے کو خلاف آئین قرار دیا۔

 اگلے ہی سال پارلیمنٹ نے 19ویں آئینی ترمیم منظور کی اور ججوں کی تقرری کا معاملہ واپس ججوں کو سونپ دیا گیا، جو اب تک برقرار ہے۔ مگر یہ کہانی کا محض ایک رخ ہے۔ اعلی عدلیہ میں ایڈہاک جج کی تقرری کے موقع پر کچھ ایسی مزید سفارشیں بھی درکار ہوتی ہیں، جو اگرچہ کسی ریکارڈ کا حصہ تو نہیں بنتی مگر ان کا عکس ججوں کے فیصلوں میں صاف نظر آتا ہیں۔ 

پاکستان کے عدالتی نظام پر دو طاقتور افراد کے ذیل میں دیے گئے حالیہ تبصرے ہی اس نظام کی قلعی کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ یہ دونوں بیانات مصدقہ مان کر لکھے جا رہے ہیں کہ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود بھی ان کی تردید یا وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پوچھا گیا کہ فوج کا نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے میں کوئی کردار تھا؟ انہوں نے جواب دیا، ''حکومت نے رائے مانگی اور ہم نے رائے دی کہ جیل میں رکھ کر ایک اور بھٹو پیدا ہونے دیں، یا باہر بھجوا کر جان چھڑائیں۔‘‘ جنرل باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''لاہور ہائی کورٹ کے 45 میں سے 40 جج نواز شریف نے بھرتی کیے تھے۔‘‘ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ جج کی تقرری کا ایک ایسا 'این او سی‘ بھی ہوتا ہے، جس کی اسٹامپ سول حکومت کے پاس نہیں ہے۔

چند دن پہلے جب وزیراعظم عمران خان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کو ملک سے باہر کیوں بھجوایا گیا تو انہوں نے صحافی سے کہا، ''آپ یہ سوال جنرل باجوہ سے پوچھیں۔‘‘

علامتوں اور استعاروں کے شاعر منیر نیازی کے الفاظ میں،

اک چیل ایک ممٹی پر بیٹھی ہے دھوپ میں

گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے