جب مائیں بچوں کے جنسی استحصال کو نظر انداز کرنے لگیں
15 جون 2017جرمنی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے بارے میں زیادہ آگاہی کی سوچ کے تحت قائم کردہ ایک آزاد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اپنے ہی خاندان کے کسی رکن کے ہاتھوں جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے بچوں کو اکثر کوئی مدد فراہم نہیں کی جاتی یا پھر ان کی شکایت پر بہت دیر سے کان دھرے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مائیں جنسی استحصال کے واقعات میں بچوں کے تحفظ کے لیے شاذ و نادر ہی کوئی مداخلت کر پاتی ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں جن کئی سو بالغ افراد سے بات چیت کی گئی، انہوں نے بتایا کہ کس طرح بچپن میں جنسی استحصال کے بعد انہیں مدد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر بہت سی مائیں علم ہونے کے باوجود ایسے واقعات کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور یوں استحصال کرنے والے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔
اس کمیشن کے رکن یوہانس ولہیلم رؤرج کہتے ہیں کہ اس جائزے کے ذریعے ماؤں کی کمزوریوں کو پرکھا جا سکتا ہے۔ اس جائزے کے مطابق جنسی استحصال کے واقعات کے بہت سی ماؤں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کی بڑی وجوہات میں مالی انحصار، جذباتی تعلق یا پھر ساتھی کی جانب سے تشدد شامل ہوتے ہیں۔ اکثر خواتین کو ایسی صورتحال میں تنہا رہ جانے یا خاندان سے الگ کر دیے جانے کا خوف بھی ہوتا ہے۔
یہ کمیشن مئی 2016ء سے کام کر رہا ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں تین سو بالغ افراد سے بات چیت کی گئی، جنہوں نے اپنے بچپن یا لڑکپن میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کی تفصیلات بتائیں۔ اس سلسلے میں ابھی مزید سات سو افراد سے بات چیت کی جانا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر تیس اور پچاس برس کے درمیان کی عمر کی خواتین ہیں۔