آخر یہ سرمایہ کاری ہم خود پہ جو کر رہے ہوتے ہیں۔ محبت کے بارے میں یہ میرا پہلا خیال تھا۔ پھر عمر کے ایک دوسرے حصے میں میرے اندر ایک اور خیال پیدا ہوا۔ وہ یہ تھا کہ محبت انسان کو ہمت دیتی ہے۔ یہ ہمت اور حوصلہ کسی بھی مشکل صورت حال کے لیے انسان کے اندر تحمل اور صبر پیدا کرتے ہیں، آپ کے اندر حالات کی ستمگری سہنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
جیسا کہ فیض صاحب کہتے ہیں، ’’جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔‘‘
پھر کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ محبت اور رومانویت انسان کو اُمید دلاتی ہیں۔
ویسے محبت کیا چیز ہے؟
یہ ایک لفظ بہت سے مختلف معنی اور مفہوم کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ رومانوی محبت، والدین کی محبت، دوستوں کی محبت، جانوروں سے محبت، جگہوں سے محبت، کتابوں سے محبت، خیالات سے محبت وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے، جو بہت زیادہ معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس جذبے کی تعریف اور مطالعہ کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔
لیکن ایک جوڑے کے درمیان محبت کے مختلف اور گہرے پہلو ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے، جس نے مختلف زمانوں میں اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے منوایا ہوتا ہے۔ اس نے کئی اداروں، نظریات اور پالیسیوں کو معاشرے میں تشکیل دیا ہوتا ہے۔ محبت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ انسان کی تاریخ لیکن ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف زمانوں میں اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے منواتی آ رہی ہے۔
جب اول اول انسانوں کا رابطہ ہوا ہو گا تو ان کے بھی کوئی جذبات رہے ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت اور زمانے بدلنے سے ان جذبات کے اظہار میں تبدیلی آئی ہو لیکن ان جذبات کا احساس ہمیشہ سے ایک رہا ہے۔
اس لیے جب مختلف زمانے میں سسی اپنے پنوں کی محبت میں ماری ماری پھرتی ہے تو آج کے صدی کا انسان اس جذبے کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج کے دور میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جب سوہنی نے ماہیوال کی محبت میں رات کے اندھیرے میں دریا میں تیرتے ہوئے آزادی کے کیسے اثرات اس کے ارد گرد رہے ہوں گے۔
محبت دلچسپ ہے کیونکہ یہ ہر جگہ ہے اور اس کا ہماری ثقافت، معاشرے اور زندگیوں پر نمایاں اثر پڑتا ہے اور پھر بھی ہم نسبتاً کم جان سکیں ہیں کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے؟ سماجیات کے مطابق محبت ایک سماجی حقیقت ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ محبت انسان کی تخلیق کردہ عادتوں میں سے ایک ہے۔
محبت ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم ’’مکمل طور جان سکتے ہیں‘‘ کیونکہ ابھی تک اس کا کوئی خاص سماجی ڈھانچہ سامنے نہیں آیا ہے۔ مگر بعض اوقات اسے خاندان جیسے ادارے کے روپ میں بھی دیکھا جاتا ہے لیکن یہاں محبت کو صرف خاندان کی نظر سے دیکھنا بھی تنگ نظری ہو جائے گی۔
ویسے ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ محبت انسان کے ذاتی تجربات میں سے ایک ہو۔ مطلب مختلف انسان محبت کے مختلف تجربے سے گزرتے ہیں۔ آپ خود سوچیں اگر دو انسانوں کے دیکھنے کا زاویہ ایک جیسا نہیں ہو سکتا تو محبت کرنے کا طریقہ کیسے ایک سا ہو سکتا ہے؟
آپ لوگوں نے اکثر لوگوں کو ماضی کے رشتوں کے بارے میں بات کرتے وقت یہ کہتے سنا ہوگا کہ ''میں نے سوچا تھا کہ یہ محبت تھی...‘‘ یا ''یہ بالکل بھی محبت نہیں تھی۔‘‘ لیکن بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے دیکھنے کا زاویہ تبدیل ہوتا ہے۔
محبت کی یہ وضاحت بلکل سرسری سی ہے کہ محبت ایک بار ہوتی ہے۔ اگر انسان کے دیکھنے کا زاویہ تبدیل ہوتا ہے تو محبت کی ترجیحات کیسے ایک سی رہ سکتی ہیں؟
ابھی تک کی زندگی میں، میں نے محبت کے تین مختلف روپ دیکھے ہیں اور اسے تین الگ الگ رنگوں سے جانا ہے، آج کل یہ میرے پاس اُمید کے روپ میں آتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے.