جرائم سے نمٹنے کے ليے سزائے موت ضروری ہے، پاکستان
8 جولائی 2013خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکومت پاکستان نے سزائے موت پر عائد عارضی پابندی ميں توسيع نہ کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔ واضح رہے کہ ملک ميں 2008ء سے سزائے موت کے خلاف پابندی عائد تھی اور گزشتہ ماہ تيس تاريخ کو اس پابندی کی مدت ختم ہو چکی ہے۔
اس سلسلے ميں بات کرتے ہوئے پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے بتايا، ’’موجودہ حکومت اس پابندی ميں توسيع کا کوئی ارادہ نہيں رکھتی۔‘‘ خان کے بقول وزير اعظم نواز شريف کی پاليسی کے تحت سزائے موت پانے والے تمام مجرمان کو پھانسی دے دی جائے گی، سوائے ان کے، جنہيں انسانی بنيادوں پر معاف کيا جا چکا ہے۔
نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستان کا موقف ہے کہ ملک کے چند حصوں ميں جرائم سے نمٹنے کے ليے يہ سزا ضروری ہے، مثال کے طور پر کراچی، جہاں امن و امان کی صورتحال بے حد خراب ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد حکام کا يہ بھی ماننا ہے کہ ملک کے شمال مغربی حصے ميں پائی جانے والی بد امنی اور طالبان عسکريت پسندوں کے حملوں سے نمٹنے کے ليے بھی سزائے موت لازمی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظيميں برہم
حکومت پاکستان کی جانب سے سزائے موت پر عائد پابندی ميں توسيع نہ کرنے کے فيصلے سے انسانی حقوق کی تنظيميں کچھ زيادہ خوش نہيں ہيں۔ انٹرنيشنل کميشن آف جيورسٹس کے مطابق پاکستان کا شمار ان چند ايک ممالک ميں ہوتا ہے، جہاں يہ سزا برقرار ہے۔ اس تنظيم کے بيان کے مطابق يہ پيش رفت اس ليے بھی قابل فکر ہے کيونکہ پاکستان ميں سزائے موت کے حقدار قرار ديے جانے والے قيديوں کی تعداد کافی زيادہ ہے۔
اس بارے ميں ايمنسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے کہا گيا ہے، ’’جب تک ملک ميں سزائے موت کا قانون موجود ہے، اس وقت تک يہ امکان بھی ہے کہ بے گناہ افراد اس سزا کا نشانہ بنيں گے۔‘‘ اس بيان کے رد عمل ميں پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان کا کہنا تھا کہ امريکا، جہاں عدليہ کا نظام اعلٰی ترين مانا جاتا ہے، کے کچھ حصوں ميں بھی ابھی تک ’کيپيٹل پنشمنٹ‘ کی سزا برقرار ہے۔
واضح رہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر ميں اس وقت قريب چار سو مجرمان سزائے موت کے منتظر ہيں جبکہ انسانی حقوق کی تنظيموں کے مطابق ان کی تعداد آٹھ ہزار ہے۔ عام طور پر اس سزا پر عمل درآمد پھانسی کے ذريعے کيا جاتا ہے۔