1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرائم کا ارتکاب اور ذہنی معذور افراد کے لیے قانون میں چھوٹ

6 اکتوبر 2021

جب لوگ کسی معاشرے میں رہتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے کچھ حقوق اور ذمہ داریاں بانٹتے ہیں۔ یہ ذمہ داریاں اخلاقی، سماجی اور قانونی ہوتی ہیں اور بالغ افراد ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/41KX0
DW Urdu Blogerin Arifa Rana
تصویر: privat

لیکن یہ تمام ذمہ داریاں ان کے لیے ہیں، جو ذہنی طور پر ان سب سے مکمل آگاہ ہوں، ذہنی معذورں کو اس حوالے سے چھوٹ دی جاتی ہے۔ معذوری کو ہم دو طرح سے تقسیم کر سکتے ہیں۔ کچھ افراد جسمانی طور سے معذور ہیں اور قانون کے مطابق تفویض کی گئی مراعات کے ملنے کے انتطار میں ہیں۔  دوسرے وہ ہیں، جو ذہنی طور پر معذور ہیں اور اسی معذوری کی وجہ سے کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں۔ پاکستان بھر میں ایسے افراد خود کو ملنے والی سزاؤں میں چھوٹ کے منتظر ہیں۔

پاکستان میں معذوروں کے لیے قوانین تو 1981ء میں ہی بنا دیے گئے تھے لیکن اصل مسئلہ ان پر عمل درآمد کا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں، جو معذوروں کے حقوق کے لیےکام کر رہی ہیں، ان کے مطابق ان قوانین پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے اور مکمل عمل درآمد کے لیے ابھی بھی بہت وقت لگے گا۔

ایسے معذور افراد کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹے کی تعداد دو فیصد ہے لیکن اس پر بھی کم ہی عمل درآمد ہوتا ہے۔ حکام کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ضروری اور مناسب سہولیات فراہم کریں، جن میں قابل رسائی انفراسٹرکچر، معاون ٹیکنالوجی، کام کے ماحول میں ترامیم اور دیگر اقسام کی معاونت شامل ہے تاکہ معذور افراد اپنا کام مؤثر طریقے سے انجام دے سکیں۔

جہاں تک ذہنی معذوروں کا تعلق ہے یا ان ذہنی معذوروں کا، جو اس وقت کسی نہ کسی جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں، ان کے لیے مزید قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے  لیے صرف تعزیرات پاکستان کا سیکشن 84 صرف چند ہدایات دیتا ہے۔ اس کے مطابق اگر جرم کرنے والا ذہنی طور پر معذور ثابت ہو جائے تو اس کی سزا تب تک معطل کر دی جاتی ہے، جب تک وہ ٹھیک ذہنی حالت میں واپس نہیں آتا۔ کیونکہ سزا کا مقصد صرف جسم کو سزا دینا نہیں ہوتا بلکہ ذہن کو یہ سمجھانا بھی ہوتا ہے کہ ہر جرم کی سزا ملتی ہے۔ تقریباً 160 سے 170ایسی حالتیں ہیں، جن کو ذہنی معذوری میں شامل کیا جاتا ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں ذہنی معذوری کے قوانیں پر بہت کام ہو چکا ہے بہ نسبت پاکستان کے۔ یہاں موجود قانون پر عمل درآمد تو دور کی بات ہے، اس پر عمل درآمد کا مناسب طریقہ کار بھی ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا، جس کی ازحد ضرورت کسی بھی ٹرائل کے آغاز پر ہوتی ہے۔ ملزم صحیح الدماغ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہی کیس کا رخ پلٹ سکتا ہے۔

جو لوگ قانونی ذمہ داریوں اور حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو سزا دی جاتی ہے تاکہ قانون کے احترام کو بڑھایا جا سکے۔ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ زیربحث عمل مجرمانہ ذہن سے کیا گیا ہو۔  فوجداری قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ ہر فعل مجرمانہ ذمہ داری کا حامل نہیں ہوتا، جب تک کہ  یہ کسی غلط ارادے سے انجام نہ دیا جائے۔ دو عناصر ارادہ اور مقصد ہیں، جو کسی بھی فعل کو جرم بناتے ہیں۔ کسی شخص کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا دونوں عناصر کوئی عمل کرتے وقت موجود تھے۔

ایک شخص جو  ذہنی بیماری میں مبتلا ہے یا اپنے عمل کی نوعیت کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، ایسے شخص کو قانونی استثناء حاصل ہے کیونکہ وہ جرم کرتے وقت کچھ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے؟

اس سب کا صحیح اندازہ ٹرائل کورٹ کے اختیار میں ہے کہ اگر کوئی مجرم اس بات کی آڑ لیتا ہے تو اس کو ثابت کیا جائے۔ اس ضمن میں اس کے خاندان کے لوگ اور ڈاکٹرز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے جرم کی سزا اس وقت تک معطل کر دی جاتی ہے، جب تک ملزم ٹھیک ذہنی حالت میں نہ آ جائے اور اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ جان سکے کہ اس نے کیا جرم کیا ہے؟ اس دوران اس کو ذہنی امراض کے ادارے میں بھیجنا ضروری ہے نہ کہ آزاد کرنا کیونکہ اس کی آزادی کسی اور کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

اسلامی قانون کے تحت بھی پاگل پن کا تصور کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ اسلامی قانون کے تحت یہ ایک ذہنی بیماری ہے اور اس کو دفاع کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو ذہنی طور پر کمزور ہیں، ان کو ایسی حرکتوں کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس کے لیے ایک خصوصی قانونی طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے۔ اسلامی قانون ان متاثرین کو معاوضہ دے گا، جو ذہنی طور پر کمزور شخص کے اعمال کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک شخص جو ذہنی طور پر کمزور ہے، اسلام اسے کسی بھی ذمہ داری سے آزاد قرار دیتا ہے۔

تنزیلہ خان - پاکستان میں معذور خواتین کی آواز