جرمن اتحاد : جو حاصل ہوا وہ اعدادو شمار سے ماورا
3 اکتوبر 2010کسی اہم اور تاريخی واقعے کی ياد مناتے وقت ايک عام رجحان يہ ہوتا ہے کہ اس کی مناسبت سے اعداد و شمار سامنے لائے جاتے ہيں۔ يہی حال اب جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے 20 سال پورے ہونے کے موقع پر بھی ہے کہ اس بارے ميں ایسے اعداد و شمار پيش کئے جا رہے ہيں، جن سے يہ ظاہر ہو کہ اتحاد کے 20 سال بعد اب جرمنی کی حالت کيا ہے، وہ کہاں کھڑا ہے اور يہ صحيح بھی ہے۔ ان ميں سے بہت سے اعداد و شمار سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے پچھلے دو عشروں کے دوران بہت سی غلطياں کی گئی ہيں۔ ابھی تک نا انصافياں باقی ہيں۔ جرمنی کے مشرقی حصے ميں بے روزگار افراد کی تعداد مغربی حصے کے مقابلے ميں دوگنا ہے، مغربی حصے ميں يکساں کام کی اُجرت مشرقی حصے سے زيادہ ہے۔ يہ سب کچھ بہت سے شاندار علمی مطالعات اور تجزيوں ميں پڑھا جا سکتا ہے، ليکن اس سے جرمنی اور اُس کے دوبارہ اتحاد سے متعلق کيا معلوم ہوتا ہے؟ درحقيقت کچھ زيادہ نہيں۔
تاريخی لحاظ سے يکتا نوعيت
دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن تاريخ کے سب سے بڑے اور ہنوز جاری منصوبے کو اعداد و شمار کے ذريعے نہيں جانچا جا سکتا۔ يہ فطری بات ہے کہ جرمنی کے مغربی حصے کے شہری، مشرق کو منتقل کی جانے والی اربوں کی اُن رقوم کے بوجھ کو محسوس کر رہے ہيں، جو ابھی ايک لمبے عرصے تک جاری رہيں گی۔ مشرقی حصے کے شہريوں کو اس سے کہيں زيادہ مشکل پيش آئی تھی۔ اُنہيں مشرقی جرمنی کے معاشرتی، سياسی اور اقتصادی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اپنی زندگی بالکل نئے سرے سے شروع کرنا پڑی تھی۔
تاہم جرمنی ميں ان مشکلات کے باوجود حاصل ہونے والی کاميابيوں کی ابھی تک صحيح طور پر قدر نہيں کی جاتی۔ اس کی بجائے بہت زيادہ شکوے شکايتيں ہی کی جاتی ہيں، جو 20 برسوں کے بعد صرف اپنے اپنے مفادات کی سياست کے علاوہ کچھ اور نہيں ہے، چاہے وہ مشرق ميں ہو يا مغرب ميں۔ کوئی بھی يہ توقع نہيں کر سکتا تھا کہ مغربی اور کميونسٹ مشرقی جرمنی جيسے ايک دوسرے سے دو قطعی مختلف معاشرے، دوعشروں کے اندر ہی آپس ميں گھل مل کر ساتھ ساتھ آگے بڑھ سکتے تھے۔ جو بھی يہ مطالبہ کرتا ہے کہ 20 سالہ اتحاد کے بعد مشرق اور مغرب کے درميان کوئی فرق باقی نہيں رہ جانا چاہيے، وہ اِس بے مثال اور اپنی نوعيت کے اعتبار سے يکتا تاريخی واقعے کی وسعت اور گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
نت نئے تجربات کا وقت نہيں
يہ حقيقت ہے کہ ديوار برلن کے گرنے کے بعد سے بہت سی غلطياں بھی کی گئی ہيں۔ بہت سے حالات کے غلط اندازے لگائے گئے۔ آج يہ بات طے ہے کہ جرمن اتحاد کے معماروں کے پاس اُس وقت تجربات کے لئے اور دونوں جرمن رياستوں کو آہستہ آہستہ ايک دوسرے کے قريب لانے کے لئے وقت نہيں تھا۔ اُنہيں ايک ايسے تاريخی موقع سے فائدہ اٹھانا تھا، جب اُس وقت تک معلوم عالمی نظام بہت بنيادی طور پر تبديل ہو رہا تھا اور اُنہوں نے يہی کيا۔ ظاہر ہے کہ عوام سے يہ وعدہ کرنا کہ اتحاد چند ہی برسوں کے اندر اور قابل اندازہ اخراجات کے ذريعے ممکن ہو سکے گا، جيسا کہ اُس وقت کے چانسلر ہيلمٹ کوہل نے سن 1990 ميں کيا، صحيح نہيں تھا۔ تاہم يہ غلط وعدہ بھی کوہل اور جرمن اتحاد کی کوششوں ميں شريک دوسری شخصیات کی خدمات کو حقير نہيں بنا سکتا۔
جرمنی کو ہر اعتبار سے دوبارہ اتحاد سے فوائد حاصل ہوئے ہيں۔ انہی ميں يہ بھی شامل ہے اور يہ کم نہيں ہے کہ پچھلے 20 برسوں ميں يہ ملک زيادہ کھلا، زيادہ رنگ برنگا اور زيادہ زندگی سے بھر پور ہو گيا ہے۔ اِس نے تضادات، کھلے سوالات اور سماجی تنازعات کو دبانے اور چھپا دينے کے بجائے اُن کا بہتر طور پر سامنا کرنا سيکھ ليا ہے۔ اب يہ ملک سوالات کے جوابات دھندلکوں ميں نہيں ڈھونڈتا بلکہ وہ آنکھيں کھول کر مسائل کو ديکھتا، غور کرتا اور اُن کے بارے ميں دريافت بھی کرتا ہے۔ جرمنی، يورپ کے وسط ميں ايک ايسا معاشرہ، ايک ايسی تجربہ گاہ ہے، جسے مستقل طور پر تبديليوں، چيلنجوں اور نئے نئے تجربات کا سامنا رہتا ہے۔ يہ بھی دوبارہ اتحاد کا ايک نتيجہ ہے اور اِس ملک کے بارے ميں اُس سے زيادہ بتاتا ہے، جتنا کہ اعدادوشمار سے معلوم ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: مارک کوخ/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی