جرمن اخبارات میں گزشتہ ہفتے کا جنوبی ایشیا
20 مارچ 2011امريکی شہری اور سی آئی اے کے ايجنٹ ريمنڈ ڈيوس کو پاکستان ميں حيرت انگيزطور پربالکل اچانک جيل سے رہا کرديا گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے دو پاکستانيوں کا قتل اپنے دفاع ميں کيا تھا۔ پاکستانی حکام نے اس پر قتل کی فرد جرم عائد کی تھی۔ اخبار süddeutsche Zeitung لکھتا ہے، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں سی آئی اے کی سرگرمياں مشکوک ہيں اور ايسا معلوم ہوتا ہے ان ميں اکثر بہت سی حدود کو بھی عبور کر ليا جاتا ہے۔ ليکن يہ تصوير کا ايک رخ ہے۔ پاکستان خود بھی انتہاپسندی پر قابو پانے کے سلسلے ميں اپنی غلطيوں کا اعتراف کرنے سے گريز کررہا ہے۔ ملک کو اسلامی انقلاب سے بچانے کے لیے رياست اورمذہب کے درميان رشتے پر ايک کھلی بحث فائدے مند ہوگی۔ پاکستانی خفيہ سروس آئی ايس آئی نے ريمنڈ ڈيوس کيس کو، ملک ميں سی آئی اے کی مختلف نوعيت کی سرگرميوں پر زيادہ کڑی نظر رکھنے کے لیے استعمال کيا ہے۔ اس کا ايک ذيلی اثر يہ ہوا ہے کہ آئی ايس آئی افغانستان ميں اپنے دائرہء کار ميں اضافہ کرنے ميں کامياب ہوئی ہے۔ پاکستان کی خفيہ سروس اب بھی افغانستان ميں انتہا پسندوں سے روابط قائم رکھے ہوئے ہے تاکہ جنگ کے خاتمے کے بعد وہ افغانستان ميں حالات پر اثر انداز ہو سکے۔ مغربی ممالک پاکستان کی اس سوچ کو پسند نہيں کرتے‘۔
برصغير پاک و ہند اسلحے کے عالمی تاجروں کے لیے سونے کی ايک قيمتی کان بن چکی ہے۔ بھارت نے اسلحے کی درآمد کے سلسلے ميں چين کو پيچھے چھوڑ ديا ہے۔ سويڈن کے، امن پر ريسرچ کے ادارے سپری کے مطابق پاکستان سن 2006 ء اور سن 2009ء ميں دنيا ميں اسلحے کا تیسرا سب سے بڑا خريدار تھا۔ اخبار Frankfurter Rundschau لکھتا ہے، چين نے اسلحے کی درآمد پر خرچ ميں جو کمی کی، اس کی وجہ اچانک امن کی امنگ نہيں بلکہ چين خود اپنی اسلحہ ساز صنعت پراب زيادہ رقم خرچ کررہا ہے۔ اس کے مقابلے ميں بھارت اب دنيا ميں سب سے زيادہ ہتھيار خريدنے والا ملک بن چکا ہے۔ سپری کے ماہر سيمون ويزرمن نے کہا کہ اس کی وجہ سلامتی کے داخلی مسائل کے علاوہ خاص طور پر پاکستان سے تنازعہ اور چين کے ساتھ بھارت کا دوبارہ شروع ہوتا ہوا تناؤ ہے۔ سپری کے ماہر نے کہا کہ بھارت کی فوجی اور سياسی قيادت يہ اعلان کرچکی ہے کہ اُسے دو ممکنہ محاذوں پر جنگ کی تياری کرنا ہے۔ بھارت، خاص طور روس سے اسلحہ حاصل کرتا ہے جبکہ پاکستان امريکہ اور چين سے ہتھيار خريدتا ہے۔ 2010ء ميں پاکستان دنيا ميں اسلحہ کی خريد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا۔
ايشيا کی تيسری بڑی اقتصادی طاقت بھارت اپنے زبردست ايٹمی پروگرام کے بارے ميں اب سوچ ميں پڑگئی ہے۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung بھارتی رياستی نيوکلير کارپوريشن کے انتظامی بورڈ کے چيئرمين شريانس کمار کے الفاظ نقل کرتا ہے۔ يہ کارپوريشن، بھارت ميں ايٹمی توانائی کے پرامن استعمال پر اجارہ داری رکھتی ہے،’ ہم وزراء کے ساتھ مل کر اپنے ايٹمی پروگرام کے تمام منصوبوں کی جانچ پڑتال کريں گے۔ ان ميں نئے ری ايکٹروں کے منصوبے بھی شامل ہوں گے۔ جاپان ميں آنے والی تباہی ہمارے پروگرام پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔ ہم لوگوں کے شکوک اور تفکرات سے آنکھيں بند نہيں کر سکتے۔ اب تک بھارت کا يہ منصوبہ ہے کہ 2030ء تک ايٹمی طاقت ميں اضافے پر تقريباً 175 ارب ڈالر خرچ کيے جائيں گے۔
بھارت ميں دنيا کی آبادی کا 17 فيصد حصہ رہتا ہے۔ ليکن انہيں دنيا ميں پانی کے ذخائر ميں سے صرف چار فيصد دستياب ہيں۔ بھارت ميں پانی کا يہ بحران مسلسل زيادہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس دوران حکومت پانی کی قلت کو بجلی کی زبردست کمی سے بھی زيادہ خطرناک قرار دے رہی ہے۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے، ’اگر پانی کے صرف کے طريقوں میں تبديلی نہيں آتی اور بچت پر توجہ نہيں دی جاتی تو 20 برس بعد بھارت ميں پانی کی قلت 50 فيصد تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت بھی بھارت کے مفلس اور خستہ حال علاقوں کے 390 ملين افراد کو دن ميں اوسطاً صرف تين گھنٹوں کے لیے پانی فراہم کيا جاتا ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس پانی کی صفائی کا معيار بھی بہت خراب ہے۔ اس خطے کے 800 ملين افراد کو بيت الخلاء تک کی سہولت حاصل نہيں ہے۔ اس سے نہ صرف شرم و حيا کی حدود پر ضرب پڑتی ہے بلکہ بہت سی بيمارياں بھی پھيلتی ہیں، جن کے علاج پر اربوں کی رقوم خرچ کی جاتی ہيں۔ اس طرح پانی کی قلت کی سب سے زيادہ پريشانی عورتوں اور بچوں کو اٹھانا پڑ رہی ہے۔ ايشيائی ترقياتی بينک ADB کےارجن تھرپان نے پانی کے بحران ميں اضافے کے سماجی نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’اگر پانی کی کمی ہو تو آدمی کو کچھ کھونے کا خطرہ کم ہی ہوتا ہے جبکہ سب کچھ جيتا جاسکتا ہے۔ يہ آگ سے کھيلنے کے مترادف ہے‘۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : عاطف بلوچ