جرمن ادارے اور شمالی کوریا کا ’خطرناک‘ سائنسی اشتراک
28 نومبر 2022یہ ای میل صرف چند جملوں پر مشتمل تھی لیکن اسے انتہائی غیر متوقع مقام سے بھیجا گیا تھا: پیونگ یانگ۔ ڈی ڈبلیو کی درخواست کے جواب میں یہ پیغام ایک طبیعیات اور لیزر آپٹکس کے ماہر پروفیسر اِم سونگ جن کی طرف سے آیا تھا۔ یہ پروفیسر شمالی کوریا کے چند مراعات یافتہ افراد میں سے ایک ہیں۔ اس ملک میں کسی شہری کے پاس ای میل ایڈریس کا ہونا اور اسے بیرونی دنیا سے بات چیت کرنے کی اجازت بھی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت اس شہری پر بھروسا کرتی ہے۔
شمالی کوریا نے جاپان کے اقتصادی زون میں میزائل فائر کر دیا
پروفیسر اِم نے تصدیق کی کہ 2008ء اور 2010ء کے درمیان وہ برلن میں میکس بورن انسٹی ٹیوٹ فار نان لائنر آپٹکس اینڈ شارٹ پلس سپیکٹروسکوپی (ایم بی آئی) میں وزیٹنگ سائنٹسٹ تھے۔ اور اس کے بعد؟ پروفیسر ام لکھتے ہیں، ''میرے پاس کم ال سنگ یونیورسٹی میں ایک کاروباری ای میل ایڈریس ہے۔ اس ای میل ایڈریس کا استعمال کرکے ہم نے بات چیت کی اور تعاون کے کاموں کو جاری رکھا۔‘‘
ایم بی آئی کے ایک اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ان کا آخری مشترکہ کام 2020ء کے موسم گرما میں ایک خصوصی میگزین کے شمارے میں شائع ہوا۔ یہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے شمالی کوریا کے ساتھ تمام سائنسی تبادلے بند کرنے کی اپیل کیے جانے کے تقریباً چار سال بعد شائع ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شمالی کوریا کو حساس معلومات تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا چاہتی ہے تاکہ وہ اسے وسیع پیمانے پر تباہی کے جدید ہتھیاروں (ڈبلیوایم ڈی) کی تیاری میں استعمال نہ کرسکے۔
شمالی کوریا نے مشرقی ساحل سے دو مزید میزائل فائر کر دیے
ملکی انٹیلی جنس ایجنسی کی وارننگ بے سود
جرمنی اقوام متحدہ کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے تو پھر عوام کے پیسوں پر چلنے والا جرمن ادارہ ایم بی آئی شمالی کوریا کے ساتھ کیوں کام کر رہا تھا؟ یہ دو طرفہ تعاون جاری رہاحالانکہ 2016ء میں جرمنی کی انٹیلی جنس سروس وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین نے واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ پابندیوں کے باوجود'' مغربی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے شمالی کوریا کی جاری کوششوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، بشمول جرمنی میں۔‘‘
ڈی ڈبلیو کی اس کیس میں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس معاملے میں جرمنی اقوام متحدہ کی پابندیوں کی ممکنہ خلاف ورزی کرمرتکب پایا جا سکتا ہے، جس سے بچا جا سکتا تھا۔ یہ معاملہ تحقیق کی آزادی اور سلامتی کے خدشات کے بارے میں جرمنی کے نقطہ نظر کے درمیان تصادم کے امکانات پر روشنی ڈالتا ہے۔
میزائل تجربات کا ایک سلسلہ
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب شمالی کوریا شہہ سرخیوں میں نہ ہو۔ اگرچہ اس مشرقی ایشیائی ملک کی زیادہ تر آبادی غریب ہے لیکن اس نے پہلے کبھی بھی اتنے بیلسٹک میزائل نہیں داغے تھے جتنے کہ اس نے 2022ء میں داغے ہیں۔ اب ہفتوں سے یہ تشویش بھی بڑھ رہی ہے کہ شاید شمالی کوریا ایک اور جوہری بم کا تجربہ کرنے والا ہے۔ پیونگ یانگ پہلے ہی اس نوعیت کے چھ ٹیسٹ کرچکا ہے، جن میں پہلا 2006ء میں اور سب سے تازہ2017 میں کیا تھا۔
یہ اس دنیا میں تنہائی کا شکار ملک ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ایک نپا تلا قدم ہے۔ شمالی کوریائی حکومت فوجی ترقی کو حکومت کی بقا کے لیے اہم سمجھتی ہے اور اس کے لیے اسے متعلقہ تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ 2006 ء سے شمالی کوریا کے خلاف کل نو پابندیوں کے پیکجز لا چکی ہے۔ ان پابندیوں میں ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تعلیمی تبادلوں پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔ 2016 ء میں پانچویں جوہری تجربے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بالآخر فیصلہ کیا تھا کہ تمام رکن ممالک کو شمالی کوریا کے محققین کے ساتھ اپنے سائنسی تعاون کو معطل کرنا چاہیے۔
روس اور چین نے شمالی کوریا کے خلاف اقوام متحدہ کی کارروائی روک دی
اقوام متحدہ کا تحقیقی تعاون معطل کرنے کا مطالبہ
اقوام متحدہ کا شمالی کوریا سے تحقیقی تعاون تمام شعبوں اور مضامین پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ بنیادی، نظریاتی اور اطلاقی تحقیق دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔ مستثنیات صرف طبی شعبے میں یا ایسے کسی معاملے کی بنیاد پر تشخیص کے بعد دی جا سکتی ہیں۔ اس کا مقصد ایسے دوہرے استعمال کے علم کی منتقلی کو روکنا ہے جو سویلین اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک اندرونی زرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جدید تحقیق کے ممکنہ فوجی اطلاق کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے اور اس سے انکار کرنا یا اسے چھپانا انتہائی آسان ہے۔‘‘
موضوع کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر اس ذریعے نے اس قسم کے علم کی منتقلی کے خطرے کو ''خطرناک حد تک حقیقی‘‘ قرار دیا- اس ذریعے نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی پابندیاں ای میل اور مشترکہ تصنیف کے ذریعے دور دراز کے سائنسی تعاون کو بھی شامل کرتی ہیں، ''تشویش یہ ہے کہ اس طرح کے تعاون سے شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگراموں کے لیے قابل قدر ٹیکنالوجی کو غیر محسوس منتقلی کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔"
چین اور جرمنی سرکردہ تحقیقی تعاون کار
2006ء میں پہلے جوہری تجربے کے بعد سے شمالی کوریا کی انتہائی تیز رفتار فوجی ترقی کو تکنیکی ترقی کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا ۔ یہ ترقی بیرون ملک سے علم کی منتقلی کے بغیر حاصل کرنا مشکل ہے۔
اس کی تصدیق امریکہ میں جوہری عدم پھیلاؤ کے مرکز جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولیفریشن اسٹڈیز کے ایک مطالعے سے بھی ہوتی ہے، جس نے 1958ء سے 2018ء تک شمالی کوریا کے بین الاقوامی تحقیقی تعاون کا جائزہ لیا ہے۔
اس جائزے میں شامل تقریباً 1,150 مطالعات کی چھان بین سے معلوم ہوا کہ شمالی کوریا کے محافظ چین نے پیونگ یانگ کے ساتھ 900 سے زیادہ مشترکہ مطالعات کیے جبکہ اس کے بعد کافی بڑے فرق یعنی 139 مطالعات میں تعاون کے ساتھ جرمنی دوسرے نمبر پر تھا۔
گزشتہ دہائی کے دوران شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ تحقیق کے سلسلے میں خاص طور پر ایک جرمن نام نمایاں ہے۔ یہ نام ہے ایم بی ائی کے محقق ڈاکٹر یوآخم ہرمن کا ہے۔ وہ تحقیقی تعاون کے ایسے کئی منصوبوں میں شامل تھے، جنہیں امریکی مطالعے کے مصنفین دوہرے استعمال کے خطرات کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ایم بی آئی ایک غیر منافع بخش تحقیقی ادارہ ہے۔ اسے اپنی نصف فنڈنگ وفاقی وزارت تعلیم و تحقیق سے اور نصف سبسڈی جرمن وفاقی ریاستوں سے ملتی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے استفسار کے جواب میں ایم بی آئی ڈائریکٹوریٹ نے لکھا، ''ایم بی آئی کوئی فوجی تحقیق نہیں کرتا، صرف لیزرز اور اس کے استعمال کرنے کے لیے بنیادی غیر فوجی تحقیق کرتا ہے۔‘‘
ماہر طبیعیات ہرمن 1992ء میں اس کی بنیاد کے بعد سے انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تحقیق کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے ان سے فون پر رابطہ کیا لیکن انہوں نے آن دی ریکارڈ بات کرنے سے انکار کر دیا۔
برلن میں دو شمالی کورین
ہرمن اور ماہر طبیعیات ام سونگ جن کی ملاقات 2008ء کے آخر میں برلن میں تب ہوئی تھی جب ام شمالی کوریا جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس اسکالرشپ پر آئے۔ چند ماہ بعد ایک اور شمالی کوریائی کم کوانگ ہیون، ڈیملر بینز فاؤنڈیشن کی جانب سے اسکالرشپ پر ایم بی آئی پہنچے۔ کم 2012 ء تک یہاں رہے اور اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ جب اِم 2010 میں گھر واپس لوٹے توانہوں نے ہرمن کے ساتھ ذاتی رابطہ برقرار رکھا۔ ام نے ایم بی آئی میں اچھا تاثر بنایا تھا اور انہیں خاص طور پر ایک اچھے دماغ کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ دونوں سائنسدانوں نے ای میل کے ذریعے دور رہتے ہوئے کام جاری رکھا۔
2017ء اور 2020ء کے درمیان ہرمن کے شمالی کوریا کے سائنسدانوں کے ساتھ ایم بی آئی میں مجموعی طور پر نو مشترکہ تصانیف شائع ہوئیں۔ اِم نے ان میں سے آٹھ پر کام کیا جبکہ سابق پی ایچ ڈی طالب علم کم نے نویں پر کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے شمالی کوریا کے نام بھی شریک مصنفین کے طور پر سامنے آئے کیونکہ پروفیسر ام نے اپنے طلباء کوبھی اس میں شامل کیا تھا۔
تمام مشترکہ مضامین عوامی سطح پر قابل رسائی ہیں۔ سبھی لیزر ٹیکنالوجی کے میدان میں بنیادی تحقیق سےمتعلق ہیں اور وہ کسی خاص عملی مقصد کی طرف رخ نہیں کرتے۔ تاہم اسے بعد میں لیزر کے شعبے میں مزید ترقی اور اسکے فوجی استعمال کو نہیں روکتا۔
دوہرے استعمال کے خطرے پر ماہرین کا ردعمل
ڈی ڈبلیو نے الگ سے 10 آزاد طبیعیات دانوں اور تخفیف اسلحہ کے ماہرین سے کہا کہ وہ ہرمن اور ام کی تازہ ترین مشترکہ اشاعت کا جائزہ لیں۔ چھ طبیعیات دانوں میں اختلاف رائے پایا گیا۔ تین نے اس مطالعہ کو بے ضرر قرار دیا جبکہ تین کا خیال تھا کہ اس مطالعے کے مستقبل میں فوجی استعمال کی صلاحیت موجود ہے۔
تخفیف اسلحہ کے چاروں ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین میں سے ایک 2011 ء سے 2016ء تک شمالی کوریا پر پابندیوں کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے ماہرین کے پینل کے ایک جاپانی رکن کاتسوہیسا فروکاوا ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مجھے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ اس نے شمالی کوریا کو مختلف سائنسی شعبوں کو سمجھنے اور ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو بالآخر ملک کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے پروگرام میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔"
فروکاوا کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے محققین کے ساتھ ہرمن کے تعاون کا اقدام ''بہت امکان ہے کہ جرمنی کی طرف سے اقوام متحدہ کے پابندیوں کے اقدامات کی خلاف ورزی ہو۔‘‘ اس اقوام متحدہ کے سابق اہلکار نے اس بارے میں تحقیقات کی سفارش کرتے ہوئے کہا،''کم سے کم میں سمجھتا ہوں کہ جرمن حکومت اور میکس بورن انسٹی ٹیوٹ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نفاذ میں بہت کمزور تھے یا شاید جان بوجھ کر اقوام متحدہ کی پابندیوں سے لاعلم تھے۔‘‘
جرمنی میں تحقیق کی آزادی کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ سائنسدان کسی بھی سیاسی مداخلت کے بغیر اپنے شراکت داروں اور منصوبوں کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں۔ تاہم یہ آزادی ایک ذمہ داری کے ساتھ آتی ہے۔ محققین کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی سائنسی تحقیق کے دوہرے استعمال کے خطرے سے آگا ہ ہوں۔ اگر وہ اس طرح کا کوئی خطرہ محسوس کریں کہ ان کے شراکت دار اس کا فوجی استعمال کر سکتے ہیں تو ان محققین کو فوراً متعلقہ وفاقی جرمن حکام کو آگا ہ کرنا چاہیے۔ ایم بی آئی کا کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ سائنسی رابطہ ختم کر چکا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ ان کے شمالی کوریا کے ساتھ طویل اشتراک کی ذمہ دار جرمن حکومت ہے۔ میکس بورن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق شمالی کوریا کے ساتھ ہر قسم کا سائنسی تعاون ختم کرنے سے متعلق قراداد کو جرمنی میں موثر طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔
تحقیق کی آزادی کی حدود
اس معاملے میں نتیجہ تکلیف دہ نکلتا ہے۔ یہ جرمنی کی اس صلاحیت میں کمی کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت وہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کے متحمل تحقیقی منصوبوں کی شناخت کر سکے۔ اقوام متحدہ کی سخت پابندیوں کے باوجود کسی نے بھی شمالی کوریا کے ساتھ ایم بی آئی کے محقق کے تعاون پر سوال نہیں اٹھایا۔ شمالی کوریا جیسے واضح معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس طرح کی ناکامیوں کا لمبے عرصے تک جاری رہنا ممکن ہے تو یہ واضح ہے کہ یہ نظام استحصال کا شکار ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کے ایک ماہر فروکاوا نے مشورہ دیا، ''سائنسی برادری اور قومی سلامتی کے حکام کے درمیان بہت زیادہ قریبی تعاون ہونا چاہیے۔‘‘
ش ر ⁄ ع ت (ایشتر فیلڈن)
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں تحریر کیا گیا۔